زندگی کا ہر نظام اس کے اصولوں کے تابع ہو۔ اس کے برعکس مذہب اس فریب میں مبتلا رکھتا ہے کہ مسلمان، کفار کی محکومی میں بھی نہ صرف سچا اور پکا مسلمان بن کر رہ سکتا ہے۔ بلکہ ایسے روحانی مراتب حاصل کر سکتا ہے جن سے وہ ولی اﷲ، محدث، مجدد، مہدی، مثیل مسیح بلکہ نبی اور رسول بھی بن سکتا ہے اور اپنی اس خدمت جلیلہ کو فخر کے ساتھ پیش کرتا ہے کہ: ’’میں سولہ برس سے اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔‘‘ (اشتہار مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۸۹۴ئ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۸)
مسیح موعود پر ایمان
بحث کو ختم کرنے کی غرض سے ہم مانے لیتے ہیں کہ لاہوری جماعت کا عقیدہ یہی ہے کہ مرزاقادیانی مسیح موعود تھے اور بس۔ اس کے بعد وہ کہتے ہیں کہ مسیح موعود کے عقیدہ کا کفر یا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے نہ ماننے سے کوئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوجاتا۔ آئیے ذرا ان کے اس دعویٰ کا جائزہ لیں۔ مرزاقادیانی کا ارشاد ہے: ’’میں خدا کا ظلی اور بروزی طور پر نبی ہوں اور ہر ایک مسلمان کو دینی امور میں میری اطاعت واجب ہے اور مجھے مسیح موعود ماننا واجب ہے اور ہر ایک جس کو میری تبلیغ پہنچ گئی ہے گو وہ مسلمان ہے۔ مگر مجھے اپنا حکم نہیں ٹھہراتا اور نہ مجھے مسیح موعود مانتا ہے اور نہ میری وحی کو خدا کی طرف سے جانتا ہے۔ وہ آسمان پر قابل مواخذہ ہے۔ کیونکہ جس امر کو اس نے اپنے وقت پر قبول کرنا تھا۔ اس کو رد کردیا۔‘‘
(تحفتہ الندوہ ص۳،۴، خزائن ج۱۹ ص۹۵)
لاہوری جماعت کے ترجمان، پیغام صلح نے اپنی ۲۰؍فروری ۱۹۷۴ء کی اشاعت کے صفحہ اوّل پر مرزاقادیانی کا یہ قول شائع کیا۔
’’اب یہ امر صاف ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے مامور اور مسیح موعود کے نام سے دنیا میں بھیجا ہے۔ جو شخص میری مخالفت کرنے والے ہیں وہ میری نہیں، اﷲ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ کفر اور ایمان کا تعلق دنیا سے نہیں خدائے تعالیٰ کے ساتھ ہے اور خدائے تعالیٰ میرے مؤمن اور مامور ہونے کی وجہ سے تصدیق کرتا ہے۔ پھر ان کی بیہودگیوں کی مجھے کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔ غرض ان باتوں سے صاف پایا جاتا ہے کہ یہ لوگ میرے مخالف نہ تھے۔ بلکہ خداتعالیٰ کی باتوں کی انہوں نے مخالفت کی اور یہی وجہ ہے جس سے مامور من اﷲ کے مخالفوں کا ایمان سلب ہو جاتا ہے۔‘‘