ہی نہیں سکتے کہ اس کی ماہیت وکیفیت کیا ہوتی تھی۔ یعنی یہ کس طرح نازل ہوتا تھا۔ ہمیں اتنا ہی بتایا گیا ہے کہ: ’’نزلہ علیٰ قلبک باذن اﷲ (البقرہ:۹۷)‘‘ جبرائیل علیہ السلام اسے بحکم خداوندی قلب نبوی پر نازل کرتا تھا۔ اس کی طرف اس کا القا ہوتا تھا۔
۵… یہ مبہم اشارات یا خواب نہیں ہوتے تھے۔ صاف واضح متعین الفاظ ہوتے تھے۔ اسی لئے اسے کلام اﷲ کہا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے الفاظ وحی خداوندی ہیں یہ نہیں کہ اس کا مفہوم رسول اﷲﷺ کو سمجھادیا گیا تھا اور حضورﷺ نے اسے اپنے الفاظ میں بیان کر دیا۔
۶… نبی کو اس کا قطعاً اختیار نہیں ہوتا تھا کہ وہ وحی خداوندی میں کسی قسم کا تغیر وتبدل کر سکے۔ مخالفین عرب آپؐ سے کہتے کہ آپؐ قرآن کچھ ردوبدل کر دیں تو ہم آپؐ کے ساتھ مفاہمت کر لیںگے۔ اس کے جواب میں حضورﷺ سے کہاگیا کہ ان سے کہہ دیجئے کہ: ’’مایکون لی ان ابدلہ من تلقایٔ نفسی‘‘ یہ قرآن چونکہ میرا اپنا تصنیف کردہ نہیں۔ اس لئے مجھے اس کا اختیار ہی نہیں کہ میں اس میں کسی قسم کا ردوبدل کر سکوں۔ ’’ان اتبع الا ما یوحیٰ الیٰ (یونس:۱۵)‘‘ میں تو خود اس وحی کی پیروی کرتا ہوں۔
یہ ہیں وہ خصوصیات جن کے لئے لفظ وحی بطور قرآنی اصطلاح استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہم سمٹا کر کہنا چاہیں تو یوں کہا جاسکے گا کہ:
۱… یہ وہ علم تھا جو منتخب افراد کو خدا کی طرف سے براہ راست ملتا تھا۔
۲… یہ صرف حضرات انبیاء کرام تک محدود تھا۔
یہ ہے وہ علم جو آخری مرتبہ حضور نبی اکرمﷺ کو دیاگیا اور جواب قرآن کے اندر محفوظ ہے۔ آپؐ کے بعد یہ علم کسی کو نہیں مل سکتا۔ خدا نے اس طریق علم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردیا۔ اسے ختم نبوت کہا جاتاہے۔ یعنی سلسلۂ وحی کا اختتام۔ اب کسی کو حق حاصل نہیں کہ یہ دعویٰ کرے کہ مجھے خدا کی طرف سے براہ راست علم حاصل ہوتا ہے۔ (خواہ اس کا نام کچھ ہی کیوں نہ رکھ لے) جو ایسا کہتا ہے وہ مدعی نبوت ہے اور اس کا دعویٰ باطل۔
’’احمدی‘‘ حضرات اس سلسلہ میں کس قسم کی مغالطہ آفرینی سے کام لیتے ہیں۔ اس کی تفصیل تیسرے باب میں آئے گی۔ جہاں ان کے پیش کردہ دلائل کا تجزیہ کیا جائے گا۔
۲…الہام اور کشف
الہام (مادہ، ل،ھ،م) کے معنی ہیں۔ کسی چیز کو یکبارگی نگل لینا۔ یہ لفظ قرآن کریم میں صرف ایک جگہ آیا ہے۔ یعنی سورۂ الشمس میں جہا کہا گیا ہے۔ ’’ونفس وما سوہا