plague. But after a certain period of immunity, the ahmadies began to succumb to the disease like others & the faith in the efficancy of the Prophet's declaration was some what Shaken."
’’قبول احمدیت کی بڑی وجہ بانی احمدیت کا یہ دعویٰ تھا کہ اس کے پیرو طاعون سے محفوظ رہیںگے۔ حفاظت کے ایک عارضی وقفہ کے بعد احمدی بھی باقی آبادی کی طرح طاعون کا شکار ہونے لگے اور لوگوں کا اعتقاد رسول، قادیان کے اعلان کے متعلق متزلزل ہوگیا۔‘‘
(کتاب مردم شماری برائے سال ۱۹۱۱ء ص۱۶۹)
چہارم… کیا آپ کو نہ ماننے والے طاعون کا شکار ہوگئے؟ دعویٰ تو یہی تھا۔ ’’سوائے عزیزو! اس (طاعون) کا بجز اس کے کوئی علاج نہیں کہ اس مسیح کو سچے دل اور اخلاص سے قبول کر لیا جائے۔‘‘ (دافع البلاء ص۱۲، خزائن ج۱۸ ص۲۳۲)
اس وقت تقریباً چالیس ہزار انگریز افسر ہندوستان میں موجود تھے۔ وہ سب کے سب مسیح موعود کے منکر تھے۔ کیا وہ تمام طاعون سے ہلاک ہوگئے تھے؟ کیا ہندوستان میں احمدیوں کے بغیر کوئی اور متنفس باقی نہیں رہا تھا۔ اگر نہیں رہا تھا تو ۱۹۱۱ء کی کتاب مردم شماری میں چھ کروڑ چھیاسٹھ لاکھ مسلمان اور ۲۸ کروڑ دیگر اقوام کیسے درج ہوگئی ہیں۔
پنجم… کیا واقعی طاعون اس وقت تک دور نہیں ہوا تھا۔ جب تک لوگوں نے خدا کے فرستادہ کو مان نہ لیا؟
اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لئے ہمیں کتاب مردم شماری کی پھر ورق گردانی کرنی پڑے گی۔
احمدیوں کی تعداد
جب ۱۹۰۱ء کی مردم شماری قریب آئی تو مرزاقادیانی نے اعلان کے ذریعے اپنی جماعت کو ہدایت کی کہ وہ کتاب مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی درج کرائے اور ساتھ ہی حکومت سے درخواست کی۔ ’’ہم ادب سے اپنی معزز گورنمنٹ میں درخواست کرتے ہیں کہ اسی نام (احمدی) سے اپنے کاغذات اور مخاطبات میں اس فرقہ کو موسوم کرے۔ یعنی مسلمان فرقہ احمدیہ۔‘‘ (اشتہار مجریہ مورخہ ۴؍نومبر ۱۹۰۰ء مندرجہ تریاق القلوب ص۳۹۸، خزائن ج۱۵ ص۵۲۶)