راہنمائی ممکن العمل رہے گی اور ابدیت درکنار بھی۔
اسے پھر سمجھ لیجئے کہ ختم نبوت یا ختم وحی کے معنی یہ نہیں کہ اب انسانوں کو وحی کی ضرورت نہیں رہے اور اب یہ اپنے تمام معاملات اپنی عقل وفکر کی رو سے طے کر سکتے ہیں۔ بالکل نہیں۔ انسان ہمیشہ وحی کی راہنمائی کے محتاج رہیںگے۔ ان کی عقل وفکر وحی کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے کارفرما ہوگی۔ یہ وحی قرآن کریم کے اندر محفوظ ہے اور چونکہ وہ مکمل ہے۔ اس لئے مزید وحی کی ضرورت نہیں رہی۔
یہ تھیں (اور ہیں) اس کتاب کی خصوصیات جسے نوع انسانی کی ابدی راہنمائی کے لئے دیاگیا۔ جب کتاب اس قسم کی تھی تو جس رسول کی وساطت سے یہ کتاب دی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ بھی انہی خصوصیات کا حامل تھا۔
رسول آخر الزمانؐ
کتاب، تمام نوع انسان کے لئے ضابطہ ہدایت تھی تو رسول بھی تمام نوع انسان کی طرف رسول تھا۔ چنانچہ کہا کہ اعلان کر دو کہ: ’’یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (اعراف:۱۵۸)‘‘ {اے نوع انسان میں تم سب کی طرف خدا کا رسول ہوں۔} دوسری جگہ ہے۔ ’’وما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیراً ونذیر (سبا:۲۸)‘‘ {ہم نے تمہیں جملہ نوع انسان کے لئے بشیر ونذیر بنا کر بھیجا ہے۔ ان انسانوں کی طرف بھی جو حضورﷺ کے زمانے میں موجود تھے اور ان کی طرف بھی جو بعد میں آنے والے تھے۔} ’’واٰخرین منہم لما یلحقوا بہم (جمعہ:۳)‘‘ {اس قوم مخاطب کی طرف بھی اور ان کی طرف بھی جو ابھی ان سے ملے نہیں۔ بعد میں آنے والے ہیں۔}
جب خدا کی کتاب دائمی تھی تو اس کے رسول کی رسالت بھی دائمی تھی۔ فرمایا: ’’واوحی الیّ ہذا القراٰن لانذرکم بہ ومن بلغ (انعام:۱۹)‘‘ {ان سے کہہ دو کہ میری طرف یہ قرآن وحی کیاگیا ہے تاکہ میں اس کے ذریعے تمہیں بھی آگاہ کروں اور انہیں بھی جن تک یہ (بعد میں) پہنچے۔} یعنی قیامت تک جن جن لوگوں تک قرآن پہنچے گا۔ رسالت محمدیہؐ انہیں محیط ہوگی۔ یوں جس طرح قرآن کے متعلق کہا کہ وہ ’’ذکر للعلمین (تکویر:۲۷)‘‘ ہے۔ اسی طرح اس قرآن کے حامل، رسول کے متعلق کہا کہ: ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین (انبیائ:۱۰۷)‘‘ {ہم نے تمہیں تمام اقوام عالم کے لئے باعث رحمت بناکر بھیجا ہے۔}