’’ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے ہسٹریا ہے۔ بعض اوقات آپ مراق بھی فرمایا کرتے تھے۔‘‘
جن حضرات نے ولیم جیمز کی شہرہ آفاق کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ اس (ماہر نفسیات) کی تحقیق کی رو سے مراق یا ہسٹریا کے مریض کس طرح کشف والہام کے مدعی بن جاتے ہیں۔ ہمیں بہرحال اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ ہم مرزاقادیانی کے الہامات کے نمونے پیش کر رہے تھے۔ ایک اور ملاحظہ فرمائیے: ’’ایک میرے مخلص عبداﷲ نام پٹواری، غوث گڑھ، علاقہ پٹیالہ کے دیکھتے ہوئے ان کی نظر کے سامنے یہ نشان الٰہی ظاہر ہوا کہ اوّل مجھ کو کشفی طور پر دکھلایا گیا کہ میں نے بہت سے احکام قضا وقدر کے اہل دنیا کے نیکی بدی کے متعلق اور نیز اپنے لئے اور اپنے دوستوں کے لئے لکھے ہیں اور پھر تمثیل کے طور پر میں نے خدائے تعالیٰ کو دیکھا اور وہ کاغذ جناب باری کے آگے رکھ دیا کہ وہ اس پر دستخط کر دیں۔ مطلب یہ تھا کہ یہ سب باتیں جن کے ہونے کے لئے میں نے ارادہ کیا ہے ہو جائیں۔ سو خدائے تعالیٰ نے سرخ سیاہی سے دستخط کر دئیے اور قلم کی نوک پر جو سرخی زیادہ تھی اس کو جھاڑ اور معاً جھاڑنے کے ساتھ ہی اس سرخی کے قطرے میرے کپڑوں اور عبداﷲ کے کپڑوں پر پڑے اور چونکہ کشف کی حالت میں انسان بیداری سے تعلق رکھا ہے۔ اس لئے مجھے جب کہ ان قطروں سے جو خدائے تعالیٰ کے ہاتھ سے گرے اطلاع ہوئی ساتھ ہی بہ چشم خود ان قطروں کو بھی دیکھا اور میں رقت دل کے ساتھ اس قصے کو جہاں عبداﷲ کے پاس بیان کر رہا تھا کہ اتنے میں اس نے بھی وہ تربہ تر قطرے کپڑوں پر پڑے ہوئے دیکھے اور کوئی چیز ایسی ہمارے پاس موجود نہ تھی جس سے اس سرخی کے گرنے کا کوئی احتمال ہوتا اور وہ وہی سرخی تھی جو خدائے تعالیٰ نے اپنے قلم سے جھاڑی تھی۔ اب تک بعض کپڑوں میاں عبداﷲ کے پاس موجود ہیں۔ جن پر وہ بہت سی سرخی پڑی تھی۔‘‘
(تریاق القلوب ص۳۳، خزائن ج۱۵ ص۱۹۷، حقیقت الوحی ص۲۵۵، خزائن ج۲۲ ص۲۶۷)
اﷲتعالیٰ کے قلم سے مادی روشنائی کے قطرے جن کے دھبے ان کے کپڑوں پر پڑے۔ عقیدت مندوں کے ذہن ہی کے لئے قابل فہم ہوسکتے ہیں ورنہ خدا کے متعلق ایسا تصور۔ سبحان اﷲ وتعالیٰ عما یصفون!
الہام کی زبان
مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اور یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس