الہام کے معنی ملہم ہی سمجھ سکتا ہے۔ ’’ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۷، خزائن ج۲۲ ص۴۳۸)
۱۸۹۹ء کے اواخر میں آپ نے اس الہام کی تشریح یوں فرمائی۔ ’’خدا کا ارادہ ہے کہ وہ دو عورتیں میرے نکاح میں لائے گا۔ ایک بکر (کنواری) ہوگی اور دوسری بیوہ۔ چنانچہ یہ الہام جو بکر کے متعلق تھا۔ پورا ہوگیا اور اس وقت بفضلہ چار پسر اس بیوی سے ہیں اور بیوہ کے الہام کا انتظار ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۳۴، خزائن ج۱۵ ص۲۰۱)
یہ انتظار تادم واپسیں جاری رہا اور کوئی بیوہ آپ کے نکاح میں نہ آئی۔ اس پر بابو منظور الٰہی نے لکھا۔ ’’یہ الہام اپنے دونوں پہلوؤں سے حضرت ام المؤمنین (نصرت جہاں بیگم) کی ذات میں پورا ہوا۔ جو بکر آئیں اور ثیب (بیوہ) رہ گئیں۔‘‘ (تذکرہ مجموعہ الہامات ص۳۹ طبع سوم)
بابو صاحب کی خدمت میں صرف اتنی ہی گذارش ہے کہ: ’’ملہم سے زیادہ کوئی الہام کے معنی نہیں سمجھ سکتا اور نہ کسی کا حق ہے جو اس کے مخالف کہے۔‘‘
۱۰…بعض بابرکت عورتیں
مرزاقادیانی نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو ایک اشتہار نکالا تھا۔ اس کے متعلق بعد میں فرماتے ہیں۔ ’’اس عاجز نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کے ایک اشتہار میں یہ پیش گوئی خداتعالیٰ کی طرف سے بیان کی تھی کہ اس نے مجھے بشارت دی ہے کہ بعض بابرکت عورتیں اس اشتہار کے بعد تیرے نکاح میں آئیںگی اور ان سے اولاد پیدا ہوگی۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۱ ص۸۹، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۳۰)
اس اشتہار کے وقت آپ کے ہاں دو بیویاں موجود تھیں۔ فضل وسلطان کی والدہ جسے بعد میں طلاق ہوگئی اور نصرت جہاں بیگم جو موجودہ امام جماعت میاں محمود احمد قادیانی کی والدہ تھیں۔ نصرت بیگم کے بعد کسی اور عورت سے آپ کا نکاح نہیں ہوا۔
مرزاقادیانی کہتے ہیں۔ ’’میری تائید میں خدا کے کامل اور پاک نشان بارش کی طرح برس رہے ہیں اور اگر ان پیش گوئیوں کے پورا ہونے کے تمام گواہ اکٹھے کئے جائیں تو میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ساٹھ لاکھ سے بھی زیادہ ہوںگے۔‘‘ (اعجاز احمدی ص۱، خزائن ج۱۹ ص۱۰۷)
آپ کی بعض پیش گوئیاں پوری ہوئیں۔ جن میں سے اہم لیکھرام اور احمد بیگ کی وفات میعاد معینہ میں ہے۔ بعض مناظرین نے انہیں بھی جھٹلانے کی کوشش کی۔ لیکن ان کے دلائل اطمینان بخش نہیں اور ہمیں ان سے اتفاق نہیں۔ (مصنف کی ذاتی رائے ہے جو حقیقت سے میل نہیں رکھتی۔ مرتب) گو اس حقیقت سے یقینا اتفاق ہے کہ صرف پیش گوئی دلیل نبوت نہیں بن