خالی الذہن ہوکر معاملے کو نہیں سوچتے۔ احادیث معتقدین کا مسلک سمجھ میں آسکتا ہے۔ اسی طرح ان کا انکار کرنے والوں کا مؤقف بھی قابل فہم ہے۔ آپ ان میں سے کسی فریق کا ساتھ دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ راہ اختیار کرنا کیوں کر جائز ہے کہ احادیث کا انکار کرتے ہوئے ان پر ہی اپنے عقیدہ کی بنیاد قائم کی جائے۔
فہم قرآن
پیشوائیت اور دینی علوم کی اجارہ داری صریحاً غیر اسلامی تصورات ہیں۔ لیکن مسلمان صدیوں سے ان تصورات ہی کا شکار ہیں۔ سلاطین اور ان کے ہوا خواہ علماء کا مفاد اسی میں تھا کہ عوام میں دو عقیدے راسخ کر دئیے جائیں۔ اوّل یہ کہ قرآن (اپنے دعویٰ کے باوجود) دین کی تکمیل نہیں کرتا۔ اس کی تکمیل کے لئے احادیث اور روایات کے ایک غیر متناہی سلسلے کی ضرورت ہے۔ جن میں استعداد پیدا کرنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔ دوسرے یہ کہ خود قرآن کو سمجھنا ایک مشکل کام ہے اور اس کے لئے تفاسیر اور علماء کی راہنمائی کی ضرورت ہے۔ فی الواقعہ دوسرا خیال پہلے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ اگر اس وہم کو ترک کر کے ہم خود قرآن پڑھنا شروع کردیں تو ایک تو ہمیں معلوم ہوگا کہ خدا کا اعلان کہ ہم نے قرآن کو آسان بنایا ہے۔ کوئی استعارہ اور تمثیل نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت پر مبنی ہے اور قرآن واقعی آسان ہے۔ ہم سب اس کو سمجھ سکتے ہیں۔ دوسرے قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے پر ہم حضرت عمرؓ کی طرح یہ کہنے کے قابل ہو جائیںگے کہ ہمارے لئے اﷲ کی کتاب کافی ہے۔
احمدیہ جماعت کے عقائد کے ضمن میں فہم قرآن کا تصور ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اس لئے اس کتاب میں اس مبحث کا ایک حد تک تفصیل سے تجزیہ کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ یہ مفروضہ کہ عوام کے لئے اپنی عقل کی روشنی میں قرآن کو سمجھنا ممکن نہیں۔ مرزاقادیانی کے دعاوی کے لئے بہت ممد ثابت ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس عقیدہ پر کئی پہلوؤں سے استدلال کیا ہے۔ سب سے پہلے تو ان کے سامنے یہ سوال پیش کیاگیا کہ جب آپ مانتے ہیں کہ قرآن خدا کی آخری کتاب ہے۔ اس کے ذریعے دین کی تکمیل ہو گئی ہے۔ تمام زمانوں، سب ملکوں اور ہر قسم کے حالات کے لئے ہدایت قرآن میں موجود ہے۔ اس میں کوئی تحریف نہیںہوئی اور نہ ہوسکتی ہے۔ تو پھر کسی نبی، محدث، مجدد یا مامور من اﷲ کی کیا حاجت ہے؟ لیکن یاد رہے کہ مرزاقادیانی کے زمانے میں ان پر یہ اعتراض علماء کے کسی قابل ذکر طبقے نے نہیں کیا اور ان لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض ہو بھی کیسے سکتا تھا۔ جب کہ یہ خود اس بات کے قائل نہ تھے کہ ہمارے دینی