کہتے ہیں: ’’اب جب کہ یہ مسئلہ بالکل صاف ہے کہ مسیح موعود کے ماننے کے بغیر نجات نہیں ہوسکتی تو کیوں خواہ مخواہ غیر احمدیوں کو مسلمان ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘‘
(کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو آف ریلیجنز نمبر۳ ج۱۴ ص۱۴۸)
انہیں نئے سرے سے مسلمان کیا جائے
دوسرے مقام پر وہ لکھتے ہیں:
چوں دور خسروی آغاز کردند
مسلماں را مسلماں باز کردند
اس الہامی شعر میں اﷲتعالیٰ نے مسئلہ کفر واسلام کو بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس میں خدا نے غیر احمدیوں کو مسلمان بھی کہا ہے اور پھر ان کے اسلام کا انکار بھی کیا ہے۔ مسلمان تو اس لئے کہا ہے کہ وہ مسلمان کے نام سے پکارے جاتے ہیں اور جب تک یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے لوگوں کو پتہ نہیں چلتا کہ کون مراد ہے۔ مگر ان کے اسلام کا اس لئے انکار کیاگیا ہے کہ وہ اب خداکے نزدیک مسلمان نہیں ہیں۔ بلکہ ضرورت ہے کہ ان کو پھر نئے سرے سے مسلمان کیا جائے۔ (کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو اف ریلیجنز نمبر۳ ج۱۴ ص۱۴۳) دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اس جگہ ایک اور شبہ پڑتا ہے اور وہ یہ کہ جب حضرت مسیح موعود اپنے منکروں کو حسب حکم الٰہی اسلام سے خارج سمجھتے تھے تو آپ نے ان کے لئے اپنی بعض آخری کتابوں میں مسلمان کا لفظ کیوں استعمال فرمایا؟‘‘
اس کے جواب میں کہا: ’’معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو بھی بعض وقت اس کا خیال آیا کہ کہیں میری تحریروں میں غیر احمدیوں کے متعلق مسلمان کا لفظ دیکھ کر لوگ دھوکا نہ کھائیں۔ اس لئے آپ نے کہیں کہیں بطور ازالہ کے غیر احمدیوں کے متعلق ایسے الفاظ بھی لکھ دئیے ہیں کہ وہ لوگ جو اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تاجہاں کہیں بھی مسلمان کا لفظ ہو اس سے مدعی اسلام سمجھا جائے نہ کہ حقیقی مسلمان… پس یہ ایک یقینی بات ہے کہ مرزاقادیانی نے جہاں کہیں بھی غیر احمدیوں کو مسلمان کہہ کر پکارا ہے وہاں صرف یہ مطلب ہے کہ وہ صرف اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ورنہ آپ حسب حکم الٰہی اپنے منکروں کو مسلمان نہ سمجھتے تھے۔‘‘
(کلمتہ الفصل مندرجہ ریویو اف ریلیجنز نمبر۳ ج۱۴ ص۱۲۶،۱۲۷)
ان کے پیچھے نماز مت پڑھو
ظاہر ہے کہ جب احمدیوں کے نزدیک غیر احمدی مسلمان ہی نہیں تو ان کے ساتھ