سے وہ ایسی بوسیدہ ہو جاتی ہے کہ اسے تجدید کی ضرورت لاحق ہو۔ اس وقت دنیا دیکھ لے گی کہ یہ رسالت اس شجر طیب کی طرح بہار خزاں ناآشنا کی مظہر ہے۔ جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ: ’’اکلہا دآئم وظلہا (الرا:۳۵)‘‘ جس کے سائے بھی ہمیشہ گھنے اور ٹھنڈے رہتے ہیں اور جس کی شاخیں بھی ہر موسم میں پھلوں سے جھکی ہوئی۔ جھوٹے مدعی، قوموں کی زبوں حالی کی خاک سے پیدا ہوتے اور مایوسی کی فضا میں پروان چڑھتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنے دعاوی کی صداقت کی آپ دلیل ہوتی ہیں اور رسالت محمدیہ میں جو قرآن ہی کا دوسرا نام ہے۔ قیامت تک یہ قوت موجود ہے کہ وہ ہر اس قوم کی زندگی عطاء کر دے جو زندہ رہنے کی متمنی ہو۔ قرآن کا پیغام اپنی حقیقت سے ناآشنا مسلمان کو پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ؎
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہوگیا
مے بھی تو مینا بھی تو ساقی بھی تو محفل بھی تو
بے خبر تو جو ہر آئینہ ایام ہے
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے
لیکن یہ (مسلمان) ’’زمانے میں خدا کا آخری پیغام‘‘ اسی صورت میں ہوسکتا ہے۔ جب اس کا ایمان ہو کہ خدا سے براہ راست علم حاصل ہونے کا امکان حضور ختم المرسلینﷺ کی ذات اقدس پر ختم ہوگیا اور قرآن کریم قیامت تک تمام نوع انسان کے لئے غیر متبدل اور مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ اس کا ایک حرف بھی منسوخ نہیں ہوسکتا۔ اسی کو ختم نبوت کہتے ہیں۔
والسلام!
پرویز
تکملہ … (طبع اوّل)
کتاب آپ نے پڑھ لی۔ جیسا کہ آپ نے پیش لفظ میں دیکھ لیا ہوگا۔ اس کا مسودہ اپریل ۱۹۷۴ء میں مکمل ہوگیا تھا اور کتابت شدہ کاپیاں اواخر جون میں پریس میں جاچکی تھیں۔ لیکن احمدیوں سے متعلق لٹریچر پر عائد شدہ پابندیوں کی وجہ سے اس کی طباعت روک دی گئی۔ ان پابندیوں کے اٹھ جانے کے بعد یہ شائع ہوسکی۔ اس دوران میں حکومت پاکستان نے (۷؍ستمبر ۱۹۷۴ئ) کو فیصلہ دیا کہ: ’’جو شخص اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا کہ نبوت سلسلۂ انبیاء کرام کی آخری کڑی محمد رسول اﷲﷺ کی ذات اقدس پر مطلقاً اور غیرمشروط طور پر ختم ہوگئی۔ یا جو شخص رسول