اور اگر کہا جائے کہ مرزاقادیانی کی نبوت ثابت نہیں تو سوال ہوگا۔ کن کے نزدیک اگر جواب یہ ہو کہ نہ ماننے والوں کے نزدیک تو اسی طرح یہود کے نزدیک مسیح اور آنحضرتﷺ کی اور مسیحیوں کے نزدیک۔ آنحضرتﷺ کی نبوت رسالت بھی ثابت نہیں۔ اگر منکرین کے فیصلہ سے ایک نبی غیر نبی ٹھہرتا ہے تو کروڑوں عیسائیوں اور یہودیوں کا اجماع ہے کہ نعوذ باﷲ آنحضرتﷺ من جانب اﷲ نبی اور رسول نہ تھے۔ پس اگر ہمارے غیر احمدی بھائیوں کا یہ اصل درست ہے کہ بیت المقدس کی تولیت کے مستحق تمام نبیوں کے ماننے والے ہی ہوسکتے ہیں تو ہم اعلان کرتے ہیں کہ احمدیوں کے سوا خدا کے تمام نبیوں کا مؤمن اور کوئی نہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان نمبر۳۶ ج۹ ص۴، مورخہ ۷؍نومبر ۱۹۲۱ء ج۹ نمبر۳۶)
یہ ہیں احمدیوں کی قادیانی جماعت کے اعتقادات اور عزائم۔ اب ان کی لاہوری جماعت کی طرف آئیے۔
ساتواں باب … لاہوری جماعت
مرزاقادیانی کی وفات ۱۹۰۸ء میں ہوئی۔ اس وقت تک ان کی جماعت میں کوئی باہمی اختلاف نہیں تھا۔ (کم ازکم اس سطح پر نہیں آیا تھا۔ اگرچہ اس کے جراثیم اسی زمانے میں پیدا ہوگئے تھے) ان کے بعد حکیم نورالدین قادیانی ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ان کی زندگی میں بھی کوئی اختلاف ابھر کر سامنے نہ آیا۔ ان کی وفات ۱۹۱۴ء میں ہوئی اور اس کے ساتھ ہی یہ جماعت دو شاخوں میں بٹ گئی۔ قادیانی شاخ کے سربراہ مرزابشیر الدین محمود قادیانی قرار پائے اور خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی نے لاہوری شاخ قائم کی۔ اس افتراق کے حقیقی اسباب یا محرکات کا تو علم نہیں۔ (کیونکہ یہ راز اندرون خانہ تھا) البتہ جو قرائن مشہور طور پر سامنے آئے ہیں۔ ان سے مترشح ہوتا ہے کہ بناء نزاع وہی تھی جو ہر جاگیر دارانہ نظام میں وجۂ مخالفت ہوتی ہے۔
غریبی سے امیری
تحریک احمدیت کی ابتداء نہایت سقیم حالات میں ہوئی۔ لیکن رفتہ رفتہ اس کی مالی پوزیشن بڑی مستحکم ہوگئی۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’ہماری معاش اور آرام کا تمام مدار ہمارے والد صاحب کی محض ایک مختصر آمدنی پر منحصر تھا اور بیرونی لوگوں میں سے ایک شخص بھی مجھے نہیں جانتا تھا اور میں ایک گمنام انسان تھا جوقادیان جیسے ویران گاؤں میں زاویہ گمنامی میں پڑا ہوا تھا۔ پھر بعد اس کے خدا نے نے اپنی پیش گوئی کے موافق ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا اور