اور پھر یہ صورت آنے والے کے لئے بھی پریشانی اور سبکی کا باعث ہے۔ ’’اس جگہ پرانے خیالات کے لوگ اس حدیث ’’امامکم منکم‘‘ کے معنی اس طرح پر کرتے ہیں کہ جب حضرت مسیح آسمان سے اتریںگے تو وہ اپنے منصب نبوت سے مستعفی ہوکر آئیںگے۔ انجیل سے انہیں کچھ غرض نہ ہوگی۔ امت محمدیہ میں داخل ہوکر قرآن شریف پر عمل کریںگے۔ پنج وقت نماز پڑھیںگے اور مسلمان کہلائیںگے۔ مگر یہ بیان نہیں کیا گیا کہ کیوں اور کس وجہ سے یہ تنزل کی حالت انہیں پیش آئے گی۔‘‘(مفہوم ایضاً)
(نشانات استعجاب مرزاقادیانی کے اپنے ہیں)
واقعی کسی کے لئے قرآن شریف پر عمل کرنا، پنج وقت نماز پڑھنا اور مسلمان کہلانا کتنی بڑی سزائیں ہیں۔ یہ سوال بھی شاید بے محل نہ ہوگا کہ خود مرزاقادیانی نے نبی ہوتے ہوئے یہ تنزل کی حالت کیوں قبول کی اور مسیح ناصری کے نزول کی صورت میں امت محمدی کی حق تلفی کی نسبت ایک اور حوالہ بھی ملاحظہ ہو۔
’’اور یہ تاویل کہ پھر اس کو (یعنی مسیح ناصری کو) امتی بنایا جائے گا اور وہی نو مسلم مسیح موعود کہلائے گا۔ یہ طریق عزت اسلام سے بہت بعید ہے۔ جس حالت میں حدیثوں سے ثابت ہے کہ اسی امت میں سے یہود پیدا ہوںگے۔ تو افسوس کی بات ہے کہ یہود تو پیدا ہوں اس امت میں سے اور مسیح باہر سے آوے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۳۰،خزائن ج۲۲ص۳۲)
ان حالات میں ظاہر ہے کہ مسیح ناصری کے نزول میں ہر متعلقہ فریق کا نقصان ہی نقصان ہے اور بقول مرزاقادیانی جب کہ ایک امتی کے لئے یہ دروازہ کھلا ہے کہ اپنے نبی متبوع سے یہ فیض حاصل کرے تو پھر ایک بناوٹ کی راہ اختیار کرنا اور اجتماع نقیضین جائز رکھنا کس قدر حمق ہے۔
مرزاقادیانی اپنے دور کے مسلمانوں کی کمزوریوں کا اندازہ لگانے میں غلط نہ تھے۔ ان کے مخاطب لوگوں کے ایک معقول حصہ نے عیسائیوں کے نبی سے بچنے کے لئے مرزاقادیانی کی ذات میں اپنے ہاں کے امتی نبی کو قبول کرلیا۔
ایک غلطی کا ازالہ
عرصہ ہوا مجھے لاہوری اور قادیانی احمدیوں کا ایک مناظرہ سننے کا اتفاق ہوا۔ طالب علمی کا زمانہ تھا اور میں نے ان دنوں اس مناظرے کو ایک تراشے سے زیادہ وقعت نہ دی۔ لیکن ایک بات اس وقت بھی مجھے بڑی عجیب معلوم ہوئی اور وہ یہ کہ دونوں طرف کے مولوی صاحبان اپنے