کے کہ غیرمسلم صدر یا وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ اس اعتبار سے دیکھئے تو (سردست) ان کی پوزیشن مسلمانوں سے بھی بہتر ہے۔
۵… آئین کی مذکورہ بالا شرط، فیصلہ کن تھی۔ جس سے اس مسئلہ کو مستقل طور پر حل (اور ختم) ہو جانا چاہئے تھا۔ لیکن سوال یہ زیرغور آگیا کہ مرزاقادیانی کے متبعین کو اجرائے نبوت کے ماننے والے تسلیم کیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ان سطور کی تسوید کے وقت یہ سوال پارلیمان کے زیرغور ہے۔ اس لئے ہم اس سلسلہ میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
البتہ جو کچھ اس کتاب میں پیش کیاگیا ہے اس کی روشنی میں قارئین خود ایک نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔ ہماری قرآنی بصیرت کے مطابق مرزاقادیانی کے متبعین (خواہ وہ قادیانی ہوں اور خواہ لاہوری) امت محمدیہ کے افراد قرار نہیں پاسکتے۔ ان کی آئینی حیثیت کیا متعین کی جاتی ہے۔ اس کے لئے میں مکلف نہیں، مجھے تو صرف بارگاہ خداوندی میں جواب دینا ہے اور اسی جوابدہی کا احساس اس کتاب کی تدوین کا جذبۂ محرکہ ہے۔
پس تحریر
یہ سطور اس وقت لکھی گئی تھیں جب احمدیوں کے کفر واسلام کا مسئلہ پارلیمان میں زیرغور تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا اس کے لئے آپ تکملہ ملاحظہ فرمائیے۔
نواں باب … مقام نبوت
ختم نبوت سے متعلق جملہ مباحث کے بعد وہ تصور سامنے آتا ہے جس سے ایک حساس مسلمان کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ ؎
ناطقہ سربگریباں کہ اسے کیا کہئے
ہم نبوت کی حقیقت اور ماہیت کو تو نہیں جان سکتے۔ لیکن قرآن کریم نے مقام نبوت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ اس قدر عظیم اور بلند ہے کہ ساری کائنات اس کے سامنے جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ میں نے اس سلسلہ میں اپنی کتاب ’’معراج انسانیت‘‘ کے آخری باب میں لکھا ہے: ’’نبوت کا مقام اس قدر عظیم المرتبت ہے کہ اس کے تصور سے روح میں بالیدگی، نگاہوں میں بصیرت، ذہن میں جلا، قلب میں روشنی، خون میں حرارت، بازوؤں میں قوت، ماحول میں درخشندگی، فضا میں تابندگی اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں زندگی کے آثار نمودار ہو جاتے ہیں۔ نبی کا پیغام انقلاب آفرین، دین ودنیا کی سرفرازیوں اور سربلندیوں کا امین ہوتا ہے۔ وہ مردوں کی بستی میں صور