خاتم النبیین کی تفسیر حدیث میں
مسئلہ ’’حدیث‘‘ پر میں ایک پوری کتاب ’’دواسلام‘‘ کے نام سے لکھ چکا ہوں۔ میرے ہاں صرف وہی حدیث قابل استناد ہے جو قرآن کی مفسر اور قرآن کے مطابق ہو۔ کسی حدیث کووحی کا درجہ حاصل نہیں۔ ہمارے پاس جو کتاب بذریعۂ وحی پہنچی وہ قرآن حکیم ہے۔ جس طرح ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ قرآن کی تفسیر پیش کریں۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ کو بھی تفسیر الوحی کا حق حاصل تھا۔ حدیث کیا ہے؟ حضور علیہ السلام اور صحابہؓ کے اقوال واعمال کا مجموعہ۔ قرآن انہی پہ انہی کی زبان میں نازل ہوا تھا۔ یہ بزرگ قرآن کو ہم سے بہتر سمجھتے تھے۔ اس لئے نامناسب نہ ہوگا۔ اگر ہم خاتم النبیین کی تفسیر سمجھنے کے لئے حدیث سے بھی مدد لیں۔
مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’دوسری کتابیں جو ہماری مسلم کتابیں ہیں۔ ان میں سے اوّل درجہ پر صحیح بخاری ہے اور اس کی تمام وہ احادیث ہمارے ہاں حجت ہیں۔ جو قرآن شریف سے مخالف نہیں اور ان میں سے دوسری کتاب صحیح مسلم ہے اور اس کو ہم اس شرط سے مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیح بخاری سے مخالف نہ ہو اور تیسرے درجہ پر صحیح ترمذی، ابن ماجہ، موطا، نسائی، ابن داؤد، دارقطنی کتب حدیث ہیں۔ جن کی حدیثوں کو اس شرط سے صحیح مانتے ہیں کہ قرآن اور صحیحین سے مخالف نہ ہوں۔‘‘ (آریہ دھرم ص۸، خزائن ج۱۰ ص۸۶)
یوں تو احادیث کے وسیع دفتر میں ختم نبوت پر بہت زیادہ احادیث ہوںگی۔ لیکن اس وقت میرے سامنے دوسو دس احادیث ہیں۔ جن میں سے صرف چند ایک درج ہیں۔
اوّل… ’’مثلی ومثل الانبیاء کمثل قصر احسن بنیانہ ترک منہ موضع لبنۃ فطاف بہ النظار یتعجبون من حسن بنیانہ الاموضع تلک اللبنۃ فکنت انا موضع اللبنۃ ختم بی البنیان وختم بی الرسل (شرح السنہ ج۷ ص۸، مشکوٰۃ ص۵۱۱، باب فضائل سید المرسلین)‘‘ {میرا تعلق گذشتہ انبیاء سے اس عمارت کی طرح ہے جو مکمل ہوگئی۔ لیکن اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی۔ لوگ اس عمارت کا چکر کاٹتے اس کی استواری وحسن تعمیر کی تعریف کرتے اور اس خالی جگہ پہ حیرت کا اظہار کرتے۔ اس خالی جگہ کی اینٹ میں ہوں۔ میری وجہ سے نبوت کی عمارت مکمل ہوگئی اور مجھ پر انبیاء کا خاتمہ ہوگیا ہے۔} خاتم النبیین کی کس قدر صاف تفسیر ہے۔