حساب کتاب پر اعتراضات
ان اسکیموں کی رو سے سرزمین قادیان جس طرح چند سالوں میں ایک جاگیر بن گئی۔ ظاہر ہے کہ اس سے حساب کتاب کا مسئلہ چھڑا اور خواجہ کمال الدین اور مولوی محمد علی قادیانی نے مرزاغلام احمد قادیانی پر اعتراضات کرنے شروع کر دئیے۔ ان کے متعلق میاں محمود احمد قادیانی نے خلیفہ نورالدین قادیانی کو اپنے ایک خط میں لکھا: ’’باقی آپ سے (یعنی مولوی حکیم نورالدین قادیانی خلیفہ اوّل سے) میں (یعنی میاں محمود احمد قادیانی ابن مرزاغلام احمد قادیانی) یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ابتلاء اگر حضرت (مرزاقادیانی) زندہ رہتے تو ان کے عہد میں بھی آتا۔ کیونکہ یہ لوگ (یعنی خواجہ کمال الدین قادیانی اور مولوی محمد علی قادیانی لاہوری) اندر ہی اندر تیاریاں کر رہے تھے۔ چنانچہ نواب صاحب نے بتایا کہ ان سے انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ حضرت (مرزاقادیانی) سے حساب لیا جائے۔ چنانچہ حضرت صاحب نے اپنی وفات سے جس دن وفات ہوئی اسی دن بیماری سے کچھ ہی پہلے کہ خواجہ کمال الدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب وغیرہ مجھ پر بدظنی کرتے ہیں کہ میں قوم کا روپیہ کھا جاتا ہوں۔ ان کو ایسا نہ کرنا چاہئے تھا۔ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا کہ آج خواجہ صاحب مولوی محمد علی کا ایک خط لے کر آئے اور کہا کہ مولوی محمد علی نے لکھا ہے کہ لنگر کا خرچ تو تھوڑا سا ہوتا ہے۔ باقی ہزاروں روپیہ جو آتا ہے وہ کہاں جاتا ہے اور گھر میں آکر آپ نے بہت غضہ ظاہر کیا اور کہا کہ کیا یہ لوگ ہم کو حرام خور سمجھتے ہیں۔ ان کو اس روپیہ سے کیا تعلق۔ اگر آج میں الگ ہو جاؤں تو سب آمدن بند ہو جائے۔
پھر خواجہ صاحب نے ایک ڈیپوٹیشن کے موقع پر جو عمارت مدرسہ کا چندہ لینے گیا تھا۔ مولوی محمد علی سے کہا کہ حضرت (مرزاقادیانی) آپ تو خود عیش وآرام سے زندگی بسر کرتے ہیں اور ہمیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خرچ گھٹا کر بھی چندہ دو۔ جس کا جواب مولوی محمد علی نے یہ دیا کہ ہاں اس کا انکار تو نہیں ہوسکتا۔ مگر بشریت ہے کیا ضرور کہ ہم نبی کی بشریت کی پیروی کریں۔‘‘
(حقیقت اختلاف ص۵۰، مصنفہ مولوی محمد علی لاہوری)
حکیم نورالدین قادیانی، مولوی محمد علی قادیانی کے استاد تھے۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی تک یہ اختلافات دبے دبے سے رہے اور ان کی وفات کے بعد یہ جماعت دوپارٹیوں میں بٹ گئی۔ جہاں تک عقائد کا تعلق ہے علیحدگی کے وقت تک ان میں (یعنی ان دونوں پارٹیوں میں) کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ لاہوری حضرات بھی مرزاقادیانی کو نبی اور رسول مانتے تھے۔ انکا