اور پھر اسے اس کی تکمیل تک پہنچنے کی راہ بتائی۔ دوسری جگہ ہے۔ ’’الذی خلق فسویٰ۰ والذی قدّر فہدیٰ‘‘ خدا وہ ہے جس نے (ہر شے) کو پیدا کیا اور اس میں صحیح توازن قائم کر دیا۔ پھر اس کی زندگی کے پیمانے مقرر کر دئیے اور ان کی طرف اس کی راہنمائی کر دی۔
جیسا کہ اوپر کہاگیا ہے۔ یہ راہنمائی کائنات میں ہر شے کے اندر ازخود موجود ہے۔ اسے ان اشیاء کی فطرت، یا جبلت کہا جاتا ہے۔ (مثلاً) بیج کے اندر یہ راہنمائی موجود ہوتی ہے کہ وہ کس طرح بڑھے، پھولے، پھلے، ایک ننھے سے بیج سے ایک تناور درخت بن جائے اور اس میں اسی قسم کے پھول آئیں اور پھل لگیں۔ مثلاً آپ مرغی کے نیچے بطخ اور مرغی کے مخلوط انڈے سینے کے لئے رکھ دیں۔
جبلت یا فطرت
انڈوں سے باہر آتے ہی بطخ کے بچے پانی کی طرف لپکیںگے اور مرغی کے چوزے اس سے دور بھاگیںگے۔ کہیں اڑتی ہوئی چیل کا سایہ نظر آجائے یا بلی کی آواز کان میں پڑ جائے تو دوڑ کر مرغی کے پروں کے نیچے دبک کر بیٹھ جائیںگے۔ شیر، بھوکوں مر جائے، گھاس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھے گا۔ بکری کا بچہ جاں بلب کیوں نہ ہو جائے۔ گوشت کے پاس تک نہیں پھٹکے گا۔ ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ تعلیم کسی درس گاہ سے حاصل نہیں کی۔ یہ کسی معلم کے پاس نہیں گئے۔ یہ راہنمائی پیدائش کے ساتھ ان کے اندر موجود ہوتی ہے اور جب یہ راہنمائی ان کے اندرموجود ہوتی ہے تو وہ اس کے مطابق زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ انہیں اس کی خلاف ورزی کا اختیار ہی نہیں ہوتا۔ کسی شے کی فطرت یا جبلت کے معنی ہی اس کی وہ روش ہے جس پر چلنے کے لئے وہ مجبور ہے اور اشیائے کائنات کی یہی وہ غیر متبدل فطرت ہے جس کی وجہ سے انسان ان سے اس قدر مفید مطلب کام لیتا ہے۔ اگر صورت یہ ہو کہ آگ پر رکھنے سے پانی کبھی کھولنے لگ جائے اور کبھی منجمد ہو جائے تو اتنی سی بات انسان کے لئے وبال جان بن جائے۔
اور جب ذکر انسان کا آگیا تو یہیں سے ہمارے سامنے حقیقت کا ایک اور گوشہ بے نقاب ہوگیا۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بطخ کا بچہ لپک کر پانی کی طرف جاتا ہے اور مرغی کا بچہ اس سے دور بھاگتا ہے۔ بکری کا بچہ گھاس چرتا ہے۔ گوشت کی طرف دیکھتا تک نہیں اور بلی کا بچہ لپک کر چوہے کو دبوچ لیتا ہے۔
انسان کی کوئی فطرت نہیں
انسانی بچے کی یہ کیفیت نہیں۔ وہ زہر کی ڈلی بھی اسی بے تکلفی سے منہ میں ڈال لیتا ہے جس بے تکلفی سے مصری کا ٹکڑا۔ جب بچہ ذرا گھٹنوں چلنے لگتا ہے تو اس کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا