’’کیا یہ ہیبت اور رعب باطل میں ہوا کرتا ہے کہ تمام دنیا کو مقابلہ کے لئے کہا جائے اور کوئی سامنے نہ آسکے۔ انہیں میرے مقابلہ پر روحانی امور کے موازنہ کے لئے کھڑا کریں۔ پھر دیکھیں کہ خداتعالیٰ میری حمایت کرتا ہے یا نہیں۔‘‘ (ازالہ جلد اوّل ص۱۱۶ حاشیہ، خزائن ج۳ ص۱۵۷)
ان نشانات پہ بحث کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا مناسب ہے کہ ان کی تعداد کیا تھی۔
نشانوں کی تعداد
۱… ۱۸۹۱ء میں فرماتے ہیں۔ ’’ایسا ہی صدہا نشان ہیں۔ جن کے گواہ موجود ہیں۔ کیا ان دیندار مولویوں نے کبھی ان نشانوں کا بھی نام لیا۔‘‘
(آسمانی فیصلہ ص۳۲، خزائن ج۴ ص۳۴۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۱۸۹۱ء میں نشانوں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچی تھی۔ ممکن ہے چار سو، سات سو یا نوسو ہو۔ بہرحال ہزار سے کم تھی۔
۲… ۱۸۹۳ء میں ارشاد ہوا۔ ’’پھر ماسوا اس کے آج کی تاریخ تک جو ۱۱؍ربیع الاوّل ۱۳۱۱ھ مطابق ۲۲؍ستمبر ۱۸۹۳ء اور نیز مطابق ۸؍اسوج ۱۹۵۰ اور روز جمعہ ہے۔ اس عاجز سے تین ہزار سے کچھ زیادہ ایسے نشان ظاہر ہوچکے ہیں۔‘‘
(شہادت القرآن ص۷۳، خزائن ج۶ ص۳۶۹)
۳… ۱۸۹۹ء تک نشانات کی تعداد یہی رہی۔ ’’ہزارہا دعائیں قبول ہوچکی ہیں اور تین ہزار سے زیادہ نشان ظاہر ہوچکا ہے۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۲، خزائن ج۱۵ ص۱۴۰)
۴… ۱۹۰۰ء میں یہ تعداد گھٹ کر سوکے لگ بھگ رہ گئی۔ ’’اور وہ نشان جو خدا نے میرے ہاتھ پر ظاہر فرمائے وہ سو سے بھی زیادہ ہیں۔‘‘
(اربعین نمبر۴ ص۲۴ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۶۰)
۵… ۱۹۰۱ء میں بھی تعداد یہی رہی۔ ’’آج تک میرے ہاتھ پر سو سے زیادہ خداتعالیٰ کا نشان ظاہر ہوا۔‘‘ (تحفہ گولڑویہ ص۹۴، خزائن ج۱۷ ص۱۸۰)
ذرا ۱۸۹۳ء کی تحریر دوبارہ پڑھ لیجئے۔ آج کی تاریخ تک تین ہزار سے کچھ زیادہ نشان ظاہر ہوچکے ہیں۔ یعنی آٹھ برس پہے تین ہزار اور اب صرف سو۔
۶… اور صرف ایک سال بعد یعنی ۱۹۰۲ء میں۔ ’’وہ غیب کی باتیں جو خدا نے مجھے بتلائی ہیں اور پھر اپنے وقت پر پوری ہوئیں وہ دس ہزار سے کم نہیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۶، خزائن ج۱۹ ص۶)