پس آیہ ’’یایہا الذین امنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما‘‘ کی رو سے اور ان احادیث کی رو سے جن میں آنحضرتﷺ پر درود بھیجنے کی تاکید پائی جاتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر بھی درود بھیجنا اسی طرح ضروری ہے جس طرح آنحضرتﷺ پر بھیجنا از بس ضروری ہے۔ (رسالہ درود شریف ص۲۲۲، مصنفہ محمد اسماعیل قادیانی)
اور یہ خود مرزاقادیانی کے ارشادات کے مطابق کہاگیا ہے۔ انہوں نے کہا تھا: ’’بعض بے خبر ایک یہ اعتراض بھی میرے پر کرتے ہیں کہ اس شخص کی جماعت اس پر فقرہ ’’علیہ الصلوٰۃ والسلام‘‘ اطلاق کرتے ہیں اور ایسا کرنا حرام ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ میں مسیح موعود ہوں اور دوسروں کا صلوٰۃ یا سلام کہنا تو ایک طرف خود آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخض اس کو پاوے میرا سلام اس کو کہے… لہٰذا میری جماعت کا میری نسبت یہ فقرہ بولنا کیوں حرام ہوگیا۔‘‘ (رسالہ درود شریف ص۲۲۴،۲۲۵، بحوالہ اربعین نمبر۲ ص۲، خزائن ج۱۷ ص۳۴۹)
پوری آیت
تصریحات بالا سے واضح ہے کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ نبوت کی بنیاد سورۂ صف کی اس آیت پر ہے۔ جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت کا ذکر ہے۔ ہم نے قصداً اس آیت کا ایک حصہ درج کیا تھا۔ اب پوری آیت ملاحظہ فرمائیے: ’’واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقا لما بین یدیّ من التورۃ ومبشرا برسول یأتی من بعد اسمہ احمد (الصف:۶۱)‘‘
یہ آیت کا پہلا حصہ ہے اس کا ترجمہ مرزابشیر الدین محمود قادیانی نے یوں کیا ہے: ’’اور (یاد کرو) جب عیسیٰ ابن مریم نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی اسرائیل! میں اﷲ کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہوکر آیا ہوں۔ (جو کلام) میرے آنے سے پہلے نازل ہوچکا ہے۔ یعنی توریت اس کی پیش گوئیوں کو میں پورا کرتا ہوں اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا۔ جس کا نام احمد ہوگا۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۷۴۳)
آیت کا باقی حصہ یہ ہے: ’’فلما جاء ہم بالبینت قالوا ہذا سحر مبین (الصف:۶۱)‘‘
اس کا ترجمہ مرزابشیر الدین محمود قادیانی نے یہ کیا ہے: ’’پھر جب وہ رسول دلائل لے کر آگیا تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا فریب ہے۔‘‘ (تفسیر صغیر ص۷۴۳)
آیت میں جاء ہم آیا ہے جو ماضی کا صیغہ ہے۔ اور اس کا ترجمہ جب وہ رسول آگیا صحیح