ان لوگوں کو حکمت وموعظت سے خدا کے راستے کی طرف دعوت دو اور ان سے اختلافی امور میں بطریق احسن بات کرو۔
جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے۔ مسئلہ قادیانیت سے میری دلچسپی شروع سے چلی آتی ہے۔ اس زمانے میں میں نے مرزاقادیانی کی قریب قریب تمام تصانیف کا مطالعہ کیا تھا اور (اپنے معمول کے مطابق) ان سے اہم مقامات کے نوٹ لیا کرتا تھا۔ یہی نوٹ بعد میں میری تحریروں میں اقتباسات کی صورت میں آجاتے تھے۔ زیرنظر کتاب کی تالیف کے وقت مجھے مرزاقادیانی کی اکثر کتابیں میسر نہیں آسکیں۔ اس لئے میں نے اقتباسات کے لئے زیادہ تر اپنے نوٹس پر انحصار کیا ہے۔ لیکن ان کے حوالوں کو پروفیسر الیاس برنی (مرحوم) کی کتاب ’’قادیانی مذہب‘‘ سے چیک کر لیا ہے۔ کتابوں کے مختلف ایڈیشنوں کی وجہ سے بعض اوقات صفحات کے نمبروں میں فرق پڑجاتا ہے۔ اس لئے میرے حوالوں میں اس قسم کا فرق ہوسکتا ہے۔ ویسے ان کی صحت کا حتیٰ الامکان بڑا خیال رکھاگیا ہے۔ بایں ہمہ یہ ایک انسانی کوشش ہے۔ جس میں سہو وخطاء کا امکان ہر وقت ہوسکتا ہے۔ اگر کسی حوالہ میں شک گذرے تو آپ مجھ سے دریافت فرماسکتے ہیں۔ لیکن میں کسی کے ساتھ بحث میں نہیں الجھوںگا۔
جہاں تک آیات قرآنی کے حوالوں کا تعلق ہے تو اوپر سورۃ کا نمبر دیاگیا ہے اور نیچے آیت کا۔ مثلاً (۳۶؍۲) سے مراد ہے۔ سورۃ البقر کی آیت نمبر۳۶۔ قرآن کریم کے بعض نسخوں میں آیات کے شمار میں ایک آدھ کا فرق ہوتا ہے۔ اسے ملحوظ رکھا جائے۔
پس تحریر
اس کتاب کا مسودہ اپریل ۱۹۷۴ء میں مکمل ہوگیا اور کتابت کے لئے بھی دے دیاگیا تھا۔ اس کے بعد ۲۹؍مئی کوربوہ اسٹیشن پر واقعہ ہونے والے حادثہ اور اس کے عواقب سے سارے ملک میں ہیجان پیدا ہوگیا اور امت محمدیہ کے جذبات میں تلاطم برپا ہوگیا اور ہرگوشے سے یہ مطالبہ کیاگیا کہ احمدیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔ جیسا کہ اس کتاب کے مطالعہ سے واضح ہوگا۔ مسلمانوں کا مطالبہ دین کا تقاضا ہے اور قرآن کریم کی واضح تعلیم کے عین مطابق۔ اس وضاحت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ یہ کتاب اس ہنگامی حادثہ کی پیدا کردہ نہیں۔ (اس کا جذبۂ محرکہ دین کا وہی تقاضا تھا جسے میں چالیس سال سے پیش کرتا چلا آرہا تھا) اس کے آخری باب میں البتہ ان مساعی کے تذکرہ کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ جو اس مطالبہ کوآئینی شکل دینے کے لئے جاری ہیں۔
پرویز، مورخہ۲۴؍جون ۱۹۷۴ء