یہ دونوں اصطلاحات بنیادی طور پر شیعہ (امامیہ) حضرات کی ہیں۔ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کے بارہویں امام، عراق کے ایک غار میں چھپ گئے تھے اور اب قیامت کے قریب وہ وہاں سے باہر تشریف لائیںگے۔ انہیں وہ امام مہدی یا امام آخر الزمان کہہ کر پکارتے ہیں۔
اور یہی عقیدہ خود سنیوں کے ہاں بھی چلا آرہا ہے۔ اس فرق کے ساتھ کہ ان کے تصور کے امام مہدی عراق کے غار سے نمودار نہیں ہوںگے۔ (کیونکہ وہ تو شیعہ ہوںگے) ان کا ظہور ویسے ہی ہوگا۔ مرزاقادیانی نے دعویٰ کیا کہ وہ امام میں ہوں۔ ایک آنے والے کے عقیدہ کے متعلق ہم (دوسرے باب میں) لکھ چکے ہیں۔ اس لئے اسے دہرانے کی ضرورت نہیں۔ یہ عقیدہ دنیا کی ہر مذہبی قوم میں چلا آرہا تھا۔ قرآن کریم نے حضور نبی اکرمﷺ کو آخری آنے والا قرار دے کر اس عقیدہ کو ختم کردیا۔ ختم نبوت سے یہی مراد ہے کہ اب کسی آنے والے کا انتظار نہ کرو۔ وہ آنے والا آچکا ہے۔ مہدی کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں آیا۔مرزاقادیانی نے اپنے دعویٰ کی تائید میں کہا ہے: ’’بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی کہ: ’’ہذا خلیفۃ اﷲ المہدی‘‘ اب سوچو کہ یہ حدیث کس پایہ اور مرتبہ کی ہے جو ایسی کتاب میں درج ہے جو اصح الکتب بعد از کتاب اﷲ ہے۔‘‘ (شہادت القرآن ص۴۱، خزائن ج۶ ص۳۳۷)
اور (جیسا کہ پہلے لکھا جاچکا ہے) بخاری میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا۔ کتنا بڑا فریب ہے جو عوام کو دیاگیا ہے اور کس قسم کا سفید جھوٹ جو دھڑلے سے بولا گیا۔ یہ ہے ان کے دعویٰ مہدویت کی حقیقت۔
مہدی سوڈانی
(ضمناً) انہی ایام، سوڈان کے ایک درویش نے بھی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان کے اس دعویٰ کے سلسلہ میں سید جمال الدین افغانیؒ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔
کہتے ہیں کہ جب سید صاحب کی ملاقات درویش سوڈانی سے ہوئی تو انہوں نے اسے انگریز کے خلاف علم جہاد بلند کرنے کی تلقین کی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہ درویش اس جہاد کی اہمیت کا تو قائل ہے لیکن اس کے باوجود اس پروگرام کو اختیار کرنے سے ہچکچاتا ہے۔ سید صاحب نے جب اصرار کیا کہ وہ متذبذب کیوں ہے تو اس نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ بات یہ ہے کہ سوڈانیوں کو ایک مدت سے یہ کہہ کر فریب دیا جارہا ہے کہ جب تک امام مہدی کا ظہور نہ ہو۔ جہاد حرام ہے۔ یہ بات وہ پچاس برسوں سے ہمارے آباء واجداد سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ باربار کے اعادہ نے یہ امران کے عقائد کا جزو بنادیا ہے کہ امام مہدی کے ظہور سے پہلے جہاد حرام ہے۔