۳… مرزاقادیانی کے شدید ترین مخالفین میں پٹیالہ کے ایک ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ مرزاقادیانی ان کی زندگی میں ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جائیںگے۔ اس کے جواب میں مرزاقادیانی نے لکھا کہ: ’’ڈاکٹر عبدالحکیم خان… جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤں گا۔ مگر خدا نے اس کی پیش گوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی ہے کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جائے گا اور خدا اس کو ہلاک کرے گا اور میں اس کے شر سے محفوظ رہوںگا۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۳۲۱،۳۲۲، خزائن ج۲۳ ص۳۳۶،۳۳۷)
مرزاقادیانی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء سے پہلے یعنی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو وفات پاگئے اور ڈاکٹر عبدالحکیم خان اس کے بعد بھی زندہ رہے۔
محمدی بیگم کا قصہ
۴… مرزاقادیانی کی زندگی میں سب سے اہم واقعہ جس نے عالمگیر شہرت اختیار کر لی تھی۔ محمدی بیگم نامی ایک خاتون (نوعمر لڑکی) کے ساتھ ان کے نکاح ہو جانے کی پیش گوئی تھی۔ اس واقعہ کو سمجھنے کے لئے چند افراد کے باہمی رشتہ کا سمجھ لینا ضروری ہے۔
محمدی بیگم مرزاحمد بیگ کی لڑکی تھیں۔ جو مرزاقادیانی کے ماموں زاد بھائی تھے اور لڑکی کی والدہ مرزاقادیانی کی چچازاد ہمشیرہ۔
مرزااحمد بیگ کی ہمشیرہ کی لڑکی (جس کا نام عزت بی بی تھا) مرزاقادیانی کی پہلی بیوی کے بیٹے فضل احمد کی بیوی تھی۔ اس لڑکی کے والد کا نام مرزا علی شیر بیگ تھا۔
مرزاقادیانی نے ایک دفعہ اعلان کیا کہ: ’’خداتعالیٰ نے پیش گوئی کے طور پر اس عاجز پر ظاہر فرمایا کہ مرزااحمد بیگ کی دختر کلاں (محمدی بیگم) انجام کار تمہارے نکاح میں آئے گی اور وہ لوگ بہت عداوت کریںگے اور بہت مانع آئیںگے اور کوشش کریںگے کہ ایسا نہ ہو۔ لیکن آخر کار ایسا ہی ہوگا اور فرمایا کہ خدائے تعالیٰ ہر طرح سے اس کو تمہاری طرف لائے گا۔ باکرہ ہونے کی حالت میں یا بیوہ کر کے اور ہر ایک روک کو درمیان سے اٹھاوے گا اور اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ کوئی نہیں جو اس کو روک سکے۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۳۹۶، خزائن ج۳ ص۳۰۵)
لڑکی کے والد نے مرزاقادیانی کی اس درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس کے قریب دو سال بعد ایک ہی بات سامنے آئی جس سے مرزاقادیانی نے اپنی اس تجویز کو اور زور سے پیش کیا۔ اس کی تفصیل خود مرزاقادیانی کی زبانی سنئے۔ انہوں نے اپنے اشتہار مورخہ ۱۰؍جولائی ۱۸۸۸ء میں لکھا: ’’(محمدی بیگم کے اعزہ) مجھ سے کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے۔ تو اس وجہ سے کئی مرتبہ دعاء