زیادہ کوئی دعویٰ نہیں کرتے۔ ۱۸۹۲ء میں وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور ۱۹۰۱ء میں مستقل نبوت کا، جو ان کی وفات ۱۹۰۸ء تک قائم ودائم رہتا ہے۔ اس تمام دوران میں (جبکہ انہوں نے بقول ان کے قریب اسی کتابیں شائع کردیں) وہ براہین احمدیہ کا پانچواں حصہ شائع نہیں کرتے۔ اس کی وجہ خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے۔
پیچ میں پھنسانے کے لیئے
’’اور یہ الہامات (یعنی جن میں نبوت وغیرہ کے دعوے کئے گئے ہیں۔ مصنف) اگر میری طرف سے اس موقع پر ظاہر ہوتے جب کہ علماء مخالف ہوگئے تھے تو وہ ہزارہا اعتراض کرتے۔ لیکن وہ ایسے موقع پر شائع کئے گئے۔ جب کہ یہ علماء میرے موافق تھے۔ یہی سبب ہے کہ باوجود اس قدر جوشوں کے ان الہامات پر انہوں نے اعتراض نہیں کیا۔ کیونکہ وہ ایک دفعہ ان کو قبول کر چکے تھے اور سوچنے سے ظاہر ہوگا کہ میرے دعویٰ مسیح موعود ہونے کی بنیاد انہی الہامات سے پڑی ہے اور انہیں میں خدا نے میرا نام عیسیٰ رکھا اور جو مسیح موعود کے حق میں آیتیں تھیں وہ میرے حق میں بیان کردیں۔ اگر علماء کو خبر ہوتی کہ ان الہامات سے تو اس شخص کا مسیح ہونا ثابت ہوتا ہے تو وہ کبھی ان کو قبول نہ کرتے۔ یہ خدا کی قدرت ہے کہ انہوں نے قبول کر لیا اور اس پیچ میں پھنس گئے۔‘‘ (اربعین نمبر۲ ص۲۱، خزائن ج۱۷ ص۳۶۹)
مرزاقادیانی کی تدریجی نبوت کا سارا راز اقتباس بالا کے آخری الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ یعنی انہوں نے پہلے کشف والہام اور ولایت کے ایسے دعاوی کئے جو مسلمانوں کے نزدیک قابل اعترا ض نہ تھے۔ پھر اپنے الہامات میں ایسا ابہام رکھا کہ نظر بظاہر ان میں کوئی بات قابل مواخذہ دکھائی نہ دے۔ یوں انہوں نے لوگوں کو اپنے پیچ میں پھنسایا اور رفتہ رفتہ دعویٰ ولایت سے نبوت تک پہنچ گئے۔ آئیے اب ہم ان سیڑھیوں کو دیکھیں جن پر چڑھ کر وہ بام نبوت تک پہنچے۔
ابتدائی اعلان
’’میں ان تمام امور کا قائل ہوں۔ جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ اہل سنت جماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن وحدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا مولانا حضرت محمد مصطفیﷺ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲﷺ پر ختم ہوگئی۔‘‘
(اعلان مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ ص۲۰، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۵۵)