انہوں نے کیا کیا تھا۔ لہٰذا بزرگوں کا کوئی قول وعمل کتاب اﷲ کے مقابلہ میں سند قرار نہیں پاسکتا۔ یہی دین کی اصل بنیاد ہے۔
لیکن اس مقام پر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ آپ کشف الہام خدا سے ہم کلامی، مجددیت وغیرہ کی جتنی جی چاہے مثالیں پیش کریں۔ ان میں سے کسی نے یہ دعویٰ نہیںکیا تھا کہ جو میرے دعاوی کو نہیں مانتا وہ دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہ دعویٰ صرف مرزاقادیانی نے کیا۔ اسی لئے مرزاقادیانی کے دعاوی کی حیثیت ان حضرات کے دعاوی سے یکسر مختلف ہے۔ جنہیں احمدی حضرات مرزاقادیانی کے دعاوی کی تائید میں پیش کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں اور مرزاقادیانی میں ایک اور بنیادی فرق ہے جس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا۔
مسیح موعود
اب ہم مرزاقادیانی کے اس دعویٰ کی طرف آتے ہیں۔ جس کی بنیادوں پر اس تحریک کی پوری کی پوری عمارت اٹھتی ہے۔ یعنی مسیح موعود کا دعویٰ، مسیح موعود کا یہودی تصور نہ قرآن کریم میں ملتا ہے اور نہ ہی اسلام کے صدر اوّل میں۔ ’’آنے والے‘‘ کے نظریہ کے متعلق ہم پہلے تفصیل سے گفتگو کر چکے ہیں۔ اسے ایک نظر پھر دیکھ لینا چاہئے۔ مسیح موعود کا نظریہ سب سے پہلے یہودیوں نے اپنے ایام اسیری میں وضع کیا۔ جب انہیں امید کی کوئی کرن نظر نہیں آتی تھی۔ اس کے بعد اسے عیسائیوں نے اختیار کیا جب کہا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی تھی۔ وہ زندہ آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے اور اب دنیا کے آخری زمانے میں وہ آسمان سے نازل ہوںگے اور عیسائیت کا عالمگیر غلبہ قائم کریںگے وہیں سے اس عقیدہ نے ہماری کتب روایات وتفسیر میں راہ پالی۔ چونکہ اس عقیدہ کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رتبہ حضور نبی اکرمﷺ کے مقابلہ میں برتر ثابت ہوتا تھا۔ (کہ وہ زندہ جاوید آسمانوں پر موجود ہیں اور حضور نبی اکرمﷺ وفات پاکر آسودۂ لحد ہیں) اس لئے عیسائیوں نے اسے بہت اچھالا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ہاں حیات ووفات مسیح کا مسئلہ گویا کفر وایمان کا معیار بن گیا ہے۔ حالانکہ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس سوال کو اس قدر اہمیت حاصل ہی نہیں۔ قرآن کریم نے ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت پر ایمان لانے کا مکلف ٹھہرایا ہے اور بس،۔ (اس مسئلہ پر میں نے اپنی کتاب شعلۂ مستور میں تفصیل سے بحث کی ہے)
مرزاقادیانی نے مسلمانوں کے دل ودماغ پر چھائے ہوئے اس عقیدہ سے فائدہ اٹھایا اور اپنے آپ کو اس مسیح کی شکل میں پیش کر دیا۔ جس کا مسلمانوں کو انتظار تھا۔ لیکن جس