حقیقت کے اعتبار سے ان میں اور وحی میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ شیخ اکبر، محی الدین ابن عربی، اس طائفہ کے سرخیل قرار دئیے جاتے ہیں۔ سنئے کہ وہ اس باب میں کیا کہتے ہیں۔ وہ اپنی مشہور کتاب فصوص الحکم میں لکھتے ہیں۔
ابن عربی کے دعاوی
’’جس مقام سے نبی لیتے تھے۔ اسی مقام سے انسان کامل، صاحب الزمان، غوث، قطب لیتے ہیں۔ اگرچہ اولیاء انبیاء کے تابع ہوتے ہیں۔ لیکن صاحب وحی دونوں ہوتے ہیں۔ ارباب شریعت تو وہ ہیں جوقرآن وحدیث سے حکم دیتے ہیں۔ قرآن وحدیث سے مصرح حکم نہیں ملتا تو قیاس کرتے ہیں۔ اجتہاد کرتے ہیں۔ مگر اس اجتہاد کی اصل وہی منقول قرآن وحدیث ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اس چیز کو اپنے کشف والہام کے ذریعے خود اﷲتعالیٰ سے لیتے ہیں۔ اس طور پر مادۂ کشف والہام اور مادۂ وحی رسول ایک ہے۔ صاحب کشف اﷲ تعالیٰ سے لینے کے طریقے سے واقف ہونے کی وجہ سے خاتم النبیین کے موافق ہے۔ ان کا اﷲتعالیٰ سے لینا عین رسول اﷲ کا لینا ہے۔‘‘
آپ غور کیجئے کہ لفظی فرق کو چھوڑ کر حقیقت کے اعتبار سے نبی کی وحی اور ان حضرات کے کشف والہام میں کچھ بھی فرق ہے؟ اور کیا کشف والہام کے امکان کو تسلیم کر لینے کے بعد عقیدۂ ختم نبوت باقی رہ جاتا ہے؟ کہا یہ جاتا ہے کہ کشف والہام کسی دوسرے کے لئے سند اور حجت نہیں ہوتا۔ لیکن (اوّل تو) سوال سند وحجت ہونے یا نہ ہونے کا نہیں۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ختم نبوت کے بعد خدا سے براہ راست علم حاصل کرنے کا امکان رہتا ہے؟ جہاں تک کشف والہام کے سند وحجت ہونے کا تعلق ہے۔ ان حضرات کے وابستگان دامن کے نزدیک قرآن وحدیث کا حکم اس قسم کی سند وحجت نہیں ہوتا۔ جس قسم کی سند وحجت ان حضرات کا کشف والہام ہوتا ہے۔ جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے۔ ان کے عقیدت مندان کے کشف والہام کے خلاف دل کی گہرائیوں میں بھی کسی قسم کا شک وشبہ پیدا ہو جانا مستوجب غضب خداوندی سمجھتے ہیں۔
یاد رکھئے کشف والہام کا کوئی تصور قرآن میں نہیں دیاگیا۔ جہاں تک اولیاء اﷲ کا تعلق ہے۔ قرآن ان کا کوئی الگ گروہ قرار نہیں دیتا۔ وہ ولی اﷲ (خدا کا دوست یا مطیع وفرمانبرار) ہونا مؤمنین ہی کی ایک صفت قرار دیتا ہے۔ یعنی قرآن کریم کی رو سے ہر مؤمن ولی اﷲ ہوتا ہے۔ اس قسم کے تمام تصورات ہم نے دوسروں سے مستعار لئے ہیں۔ تصوف علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں اسلام کی سرزمین میں ایک اجنبی پودا ہے۔ (مکاتیب اقبال حصہ اوّل ص۷۸)