ہے کوئی پیچیدگی اس تفسیر میں؟ اور ہے کوئی امکان اس آیت میں نبی بننے کا؟ اگر ہم سیدھی سی بات کو موڑنا اور کھینچنا شروع کر دیں تو رسول کو خدا اور خدا کو عبد بنا سکتے ہیں۔ مثلاً ہم کہہ سکتے ہیں کہ سورۂ فاتحہ میں خدا رسول سے کہہ رہا ہے۔ ’’ایاک نعبد‘‘ اے رسول ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں۔
کیا سورۂ فاتحہ میں کوئی ایسی رکاوٹ موجود ہے جو ہمیں اس تفسیر سے روک سکے؟ تاویل وہ حربہ ہے جس سے ہم خود خدا بن سکتے ہیں۔ کیسے؟ منصور سے پوچھو ابن العربی کے نظریہ وحدت الوجود کا مطالعہ کرو۔ بدھ کے نرواں اور آریوں کے دیدانت کو دیکھو۔ اگر ان قدیم نظریوں پر کوئی کتاب نہ مل سکے تو کسی پادری کے پاس جاؤ۔ وہ باپ بیٹے اور روح القدس کی خدائی پہ وہ وہ دلائل دے گا کہ آپ سرپیٹ کر رہ جائیںگے۔ تاویل کے زور سے آپ ایک فاسق کو جنتی اور اولیاء کو جہنمی بناسکتے ہیں۔ تاویل وہ آگ ہے جو دیر وحرم سب کو پھونک سکتی ہے۔ اس لئے تاویل کو تو رکھئے ایک طرف، اور ایک سادہ لوح طالب علم یا ایک دیانت دار محقق کی طرح آیۂ بالا پہ نظر ڈالئے اور انصافاً کہئے کہ کیا اس آیت میں کہیں کوئی نبی بننے کا نسخہ موجود ہے؟ نہیں اور قطعاً نہیں۔
دلیل افتراء
مرزاقادیانی پورے بیس برس تک اس آیت سے استدلال فرماتے رہے۔ اس استدلال کو ہر تصنیف میں باربار دہراتے رہے اور لطف یہ کہ آپ کے مخالفین یعنی مولوی محمد حسین بٹالوی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری، مولوی عبدالحق غزنوی ودیگر سینکڑوں علماء میں سے کوئی ایک بھی اس استدلال کا جواب نہ دے سکا۱؎۔
پہلے آیت ملاحظہ کیجئے۔ ’’انہ لقول رسول کریم۰ وما ہو بقول شاعر قلیلاً ما تؤمنون۰ ولا بقول کاہن قلیلاً ما تذکرون۰ تنزیل من رب العالمین۰ ولو تقول علینا بعض الاقاویل۰ لا خذنا منہ بالیمین۰ ثم لقطعنا منہ الوتین (الحاقہ:۴۰تا۴۶)‘‘ {یہ قرآن رسول کریم کا قول ہے۔ شاعر کا قول نہیں۔ تم کیوں نہیں مانتے نہ کسی کاہن کا قول ہے۔ پھر کیوں درس ہدایت نہیں لیتے۔ اس کے اتارنے کا سامان اﷲ نے کیا۔ اگر یہ رسول کریم ہماری طرف غلط باتیں منسوب کرے تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ کر اس کی رگ گردن کاٹ ڈالیں۔}
۱؎ مصنف کی اپنے متعلق خوش فہمی ہے اور بس۔ (مرتب)