آپ کا فارسی کلام عموماً اشعار پر مشتمل ہے۔ رنگ استادانہ ہے۔ مشکل زمینوں میں کامیابی سے اشعار کہتے ہیں۔ مضمون تصوف یا عشق رسول ہے اور کہیں کہیں ایسے اشعار بھی آجاتے ہیں کہ بے ساختہ داد، دینا پڑتی ہے۔ بعض اشعار میں اقبال کا رنگ اور فلسفۂ جھلکتا ہے۔ مثلاً:
از یقین ہا می نماید عالمے
کاں نہ بیند کس بصد عالم ہمے
(براہین حصہ سوم ص۱۵۵ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۱۶۰)
یقین سے وہ عالم پیدا ہو جاتا ہے جس کی مثال سودنیاؤں میں نہیں مل سکتی۔ یا
چو شام پر غبار وتیرہ حال عالمے بینم
خدا بروئے فرود آرد دعا ہائے سحر گا ہم
(براہین حصہ دوم ص۸۶، خزائن ج۱ ص۷۴)
غبار آلود شام کی طرح دنیا تاریک ہو رہی ہے۔ خدا ان ظلمتوں پر میری دعا ہائے سحر نازل کرے۔
زبان وتخیل کے لحاظ سے خوب شعر ہے۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ غیر زبان میں لکھتے وقت اغلاط سے بچنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ آپ کا فارسی کلام بھی لغزشوں سے خالی نہیں۔ باقی رہا آپ کا اردو کلام۔ تو اس پر ہم قدرے بسط کے ساتھ نظر ڈالنا چاہتے ہیں۔
۱…محل الفاظ
دائرہ ذیل میں چند الفاظ بے ترتیبی سے بھرے ہوئے ہیں۔
٭…محمود۔ ٭…خالد لاہور۔ ٭…گیا سے۔ ٭…ملنے۔
ان الفاظ کو کئی طرح ترتیب دیا جاسکتا ہے۔ مثلاً:
۱… خالد لاہور سے گیا ملنے محمود۔ ۲… لاہور خالد سے ملنے گیا محمود۔
۳… گیا لاہور ملنے محمود خالد سے۔
قس علیٰ ہذا! اور یہ سب صورتیں غیر فصیح کہلائیں گی۔ اس لئے کہ اجزائے جملہ اپنے محل پر نہیں۔ اردو میں فعل آخر میں ہوتا ہے۔ فاعل پہلے اور دیگر متعلقات بعد میں۔ چونکہ ملنا۔ لاہور میں پہنچنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ اس لئے لاہور کا ذکر پہلے آنا چاہئے۔ تو ان الفاظ کی صحیح ترتیب یہ ہوگی۔ ’’محمود خالد سے لاہور ملنے گیا۔‘‘