یہ تو رہا وہ پیچ جس کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے۔ اب اصلی حقیقت ملاحظ فرمائیے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے۔ جس نے اپنی وحی کے ذریعے سے چند امرونہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا۔ وہی صاحب شریعت ہوگیا۔ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۶، خزائن ج۱۷ ص۴۳۵)
صاحب کتاب
احمدی حضرات کا بھی یہی اعلان ہے۔ چنانچہ اخبار الفضل بابت ۱۵؍فروری ۱۹۱۹ء میں تحریر ہے۔ ’’بحث اگر کچھ ہوسکتی ہے تو وہ ’’ما انزل الیہ من ربہ‘‘ پر ہوسکتی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔ ’’یایہا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک‘‘ اور نبی کی کتاب یہی ہوتی ہے کہ ’’ما انزل‘‘ کو جمع کر لیا جائے۔ چونکہ حضرت مرزاصاحب علیہ الصلوٰۃ والسلام سب انبیاء کے مظہر اور بروز ہیں تو ان کا ’’ما انزل الیہ من ربہ‘‘ بہ برکت حضرت محمد مصطفیﷺ وقرآن شریف اس قدر زیادہ ہے کہ کسی نبی کے ’’ما انزل الیہ‘‘ سے کم نہیں بلکہ اکثروں سے زیادہ ہے۔‘‘
’’فالحمداﷲ‘‘ کہ مرزاقادیانی کا ایک لحاظ سے صاحب کتاب ہونا ثابت ہوگیا۔
مرزاقادیانی کی وحی
قرآن مجید نے اپنے منجانب اﷲ ہونے کے لئے دنیا کو چیلنج دیا اور کہا کہ: ’’وان کنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ (البقرہ:۲۳)‘‘ {جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے۔ اگر تمہیں اس کے منجانب اﷲ ہونے میں کوئی شک ہے تو (اس کا علاج بڑا آسان ہے) تم اس قرآن کی مثل ایک سورت بنا کر دکھاؤ۔} یہ تحدی قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آئی ہے۔ اس چیلنج کوقبول کرنے کی جرأت نہ حضورﷺ کے زمانے کے مخاطبین کو ہوئی تھی اور نہ ہی حضورﷺ کے بعد اس چودہ سو سال میں کسی اور کو ہوئی ہے۔ قرآن کریم کا بے مثل وبے نظیر ہونا اس کے منجانب اﷲ ہونے کی اوّلین دلیل اور نبوت محمدیہ کا بنیادی ثبوت ہے۔ یہ جرأت صرف مرزاقادیانی کو ہوئی جو اپنی وحی کے متعلق کہتے ہیں کہ:
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہمچو قرآں منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں است ایمانم