بعض شعراء نے اس قصیدے کا جواب ضرور لکھا۔ جن میں سے ایک قاضی ظفرالدین پروفیسراورنٹیل کالج لاہور تھے۔ ان کا طویل قصیدہ فصیح عربی زبان میں ہے اور عروض ونحو کی لغزشوں سے معرّا ہے۔ لیکن قصیدہ اعجازیہ کے تقریباً تین درجن اشعار عروضی ونحوی اغلاط سے آلودہ ہیں۔ بطور نمونہ ہم چند اشعار پیش کرتے ہیں:
اس قصیدہ کا آخری حروف مجری مرفوع ہے۔ یحذر، یذکر،یظہر وغیرہ
۱… ’’فاین بھذا لوقت من شان جولر‘‘ جولر شان کا مفعول بہ ہے۔ اس لئے منصوب جولرا چاہئے۔
۲… ’’وکان سنا برق من الشمس اظہر‘‘ اظہر غلط ہے۔ اس لئے کہ کان کی خبر ہے۔ اظہرا چاہئے۔
۳… ’’اکان یشفع الابنیا وموثر‘‘ موثر موثر یشفع پہ معطوف ہے۔ اس لئے موثرا چاہئے۔
۴… ’’فیاتی من اﷲ العلیم معلم ویہدی الیٰ اسرارہا ویفسر‘‘ اسرارھا کی ضمیر اﷲ کی طرف راجع ہے۔ اﷲ مذکر اور ضمیر مونث ہے۔
۵… ’’فقلت لک الویلات یاارض جولرا لعنت بملعون فانت تدمر‘‘ ارض مونث ہے اور تدمرا واحد مذکر مخاطب۔ گویا مونث کے لئے مذکر کا صیغہ استعمال کردیا جو صریحاً غلط ہے۔
یہ بحث خالص فنی قسم کی ہے۔ جس سے قارئین کو کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہم اسے یہیں ختم کرتے ہیں۔
الہامی تفسیر فاتحہ
۱… ’’فی سبعین یوماً من شہرالصیام‘‘ سبعین، ستر۔(اعجاز المسیح ص۱سرورق، خزائن ج۱۸ص۹۳) یہ کیسا رمضان ہے جس کے ستر دن ہوتے ہیں۔
۲… ’’ماقبلوا نی من البخل‘‘ (اعجاز المسیح ص۸، خزائن ج۱۸ص۱۰) بخل کا استعمال خالص پنجابی ہے۔ حسد چاہئے۔
۳… ’’اتخذو الخفا نیشن وقراً الجنانہم‘‘ (اعجاز المسیح ص۸، خزائن ج۱۸ص۱۰)لجنانہم پہ لام غلط ہے۔ اس لئے کہ اتخذو دومفعول چاہتا ہے۔ جنان پہلا مفعول ہے۔ مفعول پہ لام لانا درست نہیں۔