لکھا تھا۔ لیکن جب اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا تو اس باب میں سے وہ حصہ نکال دیا گیا۔ جس کا تعلق قادیانیت سے تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی تھی کہ یہ موضوع ایک مستقل تصنیف کا متقاضی ہے۔ تقاضا کرنے والے احباب نے میری توجہ اس طرف بھی منعطف کرائی۔ اس سلسلہ میں ایک خاص بات یہ بھی سامنے آئی کہ بعض احمدی حضرات کی طرف سے بھی یہ مطالبہ ہوا کہ مجھے اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہئے۔ تاکہ وہ دیکھ سکیں کہ قرآن کریم کی روشنی میں اس مسئلہ کی حقیقت اور اہمیت کیا ہے۔ ان میں سے بعض خطوط میں مجھے جذبہ تلاش حق کی جھلک محسوس ہوئی۔ میرا تجربہ یہ ہے کہ عام طور پر احمدی حضرات کا قرآن کریم کا مبلغ علم ان چند آیات اور ان کے مخصوص مفہوم تک محدود ہوتا ہے۔ جنہیں بحث ومباحثہ کے لئے انہیں یاد کرادیا جاتا ہے۔ اس لئے جب یہ کہا جائے کہ قرآن خالص کی روشنی میں گفتگو کی جائے تو فریق مقابل کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہوتا تو ان کا جذبہ تجسس قابل فہم ہوسکتا ہے۔
ان مطالبات کے علاوہ قرآن کریم کی روشنی میں اس مسئلہ پر گفتگو کی اہمیت کی ایک اور وجہ بھی میرے پیش نظر تھی۔
مقدمۂ بہاولپور
۱۹۲۶ء کا ذکر ہے۔ ریاست بہاولپور کی ایک عدالت میں ایک مقدمہ دائر ہوا۔ جس میں ایک مسلمان خاتون نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے خاوند نے قادیانی مسلک اختیار کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مرتد ہوگیا ہے۔ اس لئے اس شخص سے مدعیہ کا نکاح فسخ قرار دیا جائے۔ اس مقدمہ نے ملک گیر شہرت حاصل کر لی اور مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ اس لئے نہیں کہ اس میں فریقین کی حیثیت بڑی ممتاز تھی۔ وہ تو بالکل غیر معروف سے تھے۔ یہ اس لئے کہ ہندوستان میں (غالباً) یہ اپنی نوعی کا پہلا مقدمہ تھا۔ جس میں فیصلہ طلب سوال یہ تھا کہ ایک شخص قادیانی مسلک اختیار کرنے کے بعد مسلمان رہتا ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے یہ مقدمہ متعلقہ فریقین کا مابہ النزاع معاملہ نہ رہا۔ بلکہ قادیانیوں اور غیرقادیانیوں کے مابین ایک دینی سوال بن گیا۔ جس کا عدالتی فیصلہ (ظاہر ہے کہ) بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ مقدمہ قریب نوسال تک زیر سماعت رہا اور آخر الامر محمد اکبر صاحب ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر نے (جواب مرحوم ہوچکے ہیں) ۷؍فروری ۱۹۳۵ء کو اس کا فیصلہ سنادیا۔ یہ فیصلہ اپنی شہرت اور اہمیت کے پیش نظر اس زمانے میں بھی الگ چھپ گیا تھا اور اس کے بعد بھی چھپتا رہا۔ اس وقت میرے سامنے اس کا وہ نسخہ ہے جو حال ہی (جون ۱۹۷۳ئ) میں محفل ارشادیہ سیالکوٹ کی طرف سے شائع کیاگیا ہے۔ اس فیصلہ کے ص۵۳ پر بتایا گیا ہے کہ