ہے۔ جس سے متعہ کی سند مل جاتی ہے۔ اب دیکھئے کہ اس اضافہ کے متعلق حضرت عبداﷲ بن عباسؓ کیا فرماتے ہیں۔ سنیوں کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ قابل اعتماد تفسیر، تفسیر طبری ہے۔ وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ ’’ابونضرہ کی روایت ہے کہ میں نے ابن عباسؓ سے متعہ کے متعلق دریافت کیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا تم سورۂ النساء کی تلاوت نہیں کرتے۔ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کہا پھر اس میں یہ آیت نہیں پڑھا کرتے کہ ’’فما استمتعتم بہ منہن الیٰ اجل مسمّٰی‘‘ میں نے کہا نہیں۔ میں اگر اس طرح پڑھتا ہوتا تو آپ سے دریافت کیوں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اصلی آیت یونہی ہے۔ عبدالاعلیٰ کی روایت میں بھی ابونضرہ سے اسی طرح کا واقعہ منقول ہے۔ تیسری روایت میں بھی ابونضرہ سے نقل ہے کہ میں نے ابن عباسؓ کے سامنے یہ آیت پڑھی۔ ’’فما استمتعتم بہ منہن‘‘ ابن عباسؓ نے کہا ’’الیٰ اجل مسمّٰی‘‘ میں نے کہا میں تو اس طرح نہیں پڑھا۔ انہوں نے تین مرتبہ کہا خدا کی قسم! خدا نے اسی طرح نازل کیا ہے۔‘‘ (تفسیر طبری ج۵ ص۱۲،۱۳)
ہم ان حضرات سے پوچھتے ہیں کہ کیا اب بھی یہ بات آپ کی سمجھ میں آئی ہے یا نہیں کہ اختلاف قرأت سے کیا مراد ہے؟ کیا اس کے بعد بھی آپ فرمائیںگے کہ اختلاف قرأت سے مراد تفسیر اور مفہوم کا اختلاف ہے؟ حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! خدا نے اس آیت کو نازل ہی اس طرح کیا تھا جس طرح میں پڑھتا ہوں نہ کہ اس طرح جس طرح یہ قرآن مجید میں درج ہے۔
ان اعتراضات کے جواب میں احمدی حضرات کہتے ہیں کہ جب اختلاف قرأت کو آپ کے علماء کرام بھی مانتے ہیں تو اس سلسلہ میں مرزاقادیانی پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ لیکن سوال یہ نہیں کہ ہمارے ہاں کے علماء کیا مانتے ہیں اور کیا نہیں۔ سوال غور طلب یہ ہے کہ ایک شخص (مرزاقادیانی) دعویٰ کرتا ہے کہ وہ مامور من اﷲ ہے۔ وہ خدا سے براہ راست علم حاصل کرتا ہے اور مبعوث اس لئے ہوا ہے کہ مسلمانوں میں جو غلط عقائد رائج ہوگئے ہیں۔ ان کی اصلاح کرے اور اس کی حالت یہ ہے کہ خود اپنے دعویٰ ماموریت کی سند ایک ایسی روایت سے پیش کرتا ہے جو بدیہی طور پر وضعی ہے اور جس کے صحیح ماننے سے قرآن کریم محرف ثابت ہو جاتا ہے۔
مہدی یا امام آخر الزمان
مرزاقادیانی کا دعویٰ مہدی یا امام آخر الزمان ہونے کا بھی ہے۔