کے سابق صدر مولانا اسماعیل (مرحوم) اپنے کتابچہ (جماعت اسلامی کا نظریہ حدیث ص۶۵) میں لکھتے ہیں: ’’اگر ایک جماعت اپنی عقیدت مندی سے کسی اپنے بزرگ یا قائد کو خدا کا مزاج شناس سمجھ لے یا رسولؐ کا مزاج شناس تصور کر لے۔ پھر اسے اختیار دے دے کہ اصول محدثین کے خلاف جس حدیث کو چاہے قبول کر لے اور جسے چاہے رد کر دے۔ تو یہ مضحکہ انگیز پوزیشن ہمیں یقینا ناگوار ہے۔ ہم انشاء اﷲ آخری حد تک اس کی مزاحمت کریںگے اور سنت رسول کو ان ہوائی حملوں سے بچانے کی کوشش کریںگے۔‘‘
ان حالات میں آپ سوچئے کہ اگر کسی مسئلہ کے صحیح یا غلط ہونے کا معیار حدیث کو قرار دیا جائے تو اس مسئلہ تک پہنچنے سے پہلے فریقین کی پیش کردہ احادیث کے صحیح یا غلط ہونے کی بحث چھڑ جائے گی اور یہ بحث ایسی ہے کہ اس کا فیصلہ ہزار برس سے ہو نہیں پایا اور یہی وجہ ہے کہ ختم نبوت جیسا اہم سوال جو دین کی بنیاد اور اسلام کا مرکزی ستون ہے۔ ساٹھ ستر برس سے بحث وجدل کی آماج گاہ بنے چلا آرہا ہے اور ہمارے عوام (جن میں وہ تعلیم یافتہ حضرات بھی شامل ہیں۔ جنہیں دین کا براہ راست علم نہیں) حیران وپریشان ہیں کہ کسے سچا سمجھیں اور کسے جھوٹا۔
احادیث کے پرکھنے کا معیار
میرے نزدیک دین میں سند اور حجت خدا کی کتاب (قرآن کریم) ہے اور احادیث کے پرکھنے کا معیار یہ کہ جو حدیث قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف نہیں جاتی۔ اسے حضورﷺ کا ارشاد تسلیم کیا جاسکتا ہے اور جو حدیث اس کے خلاف جاتی ہو اس کے متعلق یہ کہا جائے گا کہ یہ رسول اﷲﷺ کا قول نہیں ہوسکتی۔ مجھے منکر حدیث قرار دیا جاتا ہے تو وہ اس لئے نہیں کہ میں صحیح احادیث کا منکر ہوں۔ میری کتاب ’’معراج انسانیت‘‘ میں دیکھئے میں نے کتنی حدیثیں درج کی ہیں۔ میں درحقیقت منکر ہوں۔ ان حضرات کے وضع کردہ ’’معیار حدیث‘‘ کا۔ چونکہ قرآن کریم کو صحیح اور غلط کا معیار قرار دینے سے ان حضرات کے اکثر معتقدات، نظریات اور مسالک، خلاف قرآن (فلہذا غلط) قرار پاتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے عوام کا رخ دوسری طرف موڑنے کے لئے یہ حربہ اختیار کررکھا ہے کہ مجھے منکر حدیث اور منکر شان رسالتؐ مشہور کر دیا جائے۔ آئندہ صفحات میں آپ دیکھیں گے کہ احمدی حضرات تو ایک طرف، خود سنیوں کے کس قدر معتقدات ایسے ہیں جن کی تائید میں وہ احادیث پیش کرتے ہیں۔ لیکن وہ قرآن کے خلاف ہیں اور یہی وہ مقامات ہیں۔ جہاں یہ حضرات ’’احمدیوں‘‘ سے بحث کرتے ہوئے مات کھا جاتے ہیں۔ ’’احمدی‘‘ حضرات اس صورت کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ اس میں ان کا فائدہ ہے۔ اس لئے وہ بھی مجھے منکر