شعائر اﷲ
انہوں نے ۱۹۳۲ء کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھر شعائر اﷲ کی زیارت بھی ضروری ہے۔ یہاں (قادیان میں) کئی ایک شعائر اﷲ ہیں۔ مثلاً یہی ایک علاقہ ہے جہاں جلسہ ہورہا ہے… اسی طرح شعائر اﷲ میں مسجد مبارک، مسجد اقصیٰ منارۃ مسیح شامل ہیں۔‘‘
(اخبار الفضل قادیان نمبر۸۱ ج۲۰ ص۳، مورخہ ۸؍جنوری ۱۹۳۳ئ)
حج بھی
جب ارض قادیان، ارض حرم قرار پائی تو وہاں کا اجتماع بھی حج کہلائے گا۔ چنانچہ میاں محمود قادیانی نے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’چونکہ حج پر وہی لوگ جاسکتے ہیں جو مقدرت رکھتے اور امیر ہوں۔ حالانکہ الٰہی تحریکات پہلے غرباء ہی میں پھیلتی اور پنپتی ہیں اور غرباء کو حج سے شریعت نے معذور رکھا ہے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے ایک اور ظلی حج مقرر کیا تا وہ قوم جس سے وہ اسلام کی ترقی کا کام لینا چاہتا ہے اور تادہ غریب یعنی ہندوستان کے مسلمان اس میں شامل ہوسکیں۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۶۶ ج۲۰ ص۵، مورخہ یکم؍دسمبر ۱۹۳۲ئ)
یہاں قادیان کے حج کو ظلی حج کہا۔ یہ تدریجی دعاوی کی منزل اوّل تھی۔ ایک اور صاحب نے فرمایا: ’’جیسے احمدیت کے بغیر پہلا اسلام یعنی حضرت مرزاقادیانی کو چھوڑ کر جو اسلام باقی رہ جاتا ہے۔ خشک اسلام ہے۔ اسی طرح اس ظلی حج کو چھوڑ کر مکہ والا خشک حج رہ جاتا ہے۔‘‘
اس قول کو احمدی حضرات کی لاہوری شاخ کے ترجمان پیغام صلح کی ۱۹؍اپریل ۱۹۳۳ء کی اشاعت میں شائع کیا گیا ہے۔ لیکن ان صاحب کا نام نہیں بتایا گیا۔ جنہوں نے ایسا فرمایا تھا۔
حج اکبر
قادیان کے سالانہ جلسہ میں شریک ہونے والوں سے خطاب کرتے ہوئے کہاگیا: ’’(بہشتی مقبرہ میں) وہ روضہ مطہرہ ہے۔ جس میں اس خدا کے برگزیدہ کا جسم مبارک مدفون ہے۔ جسے افضل الرسل نے اپنا سلام بھیجا اور جس کی نسبت حضرت خاتم النبیین نے فرمایا: ’’یدفن معی فی قبری‘‘ اس اعتبار سے مدینہ منورہ کے گنبد خضریٰ کے انوار کا پورا پورا پرتو اس گنبد بیضا پر پڑ رہا ہے اور آپ گویا ان برکات سے حصہ لے سکتے ہیں جو رسول کریمﷺ کے مرقد منور سے مخصوص ہیں۔ کیا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جو احمدیت کے حج اکبر میں اس تمتع سے محروم رہے۔‘‘
(الفضل قادیان نمبر۴۸ ج۱۰ ص۶، مورخہ ۱۸؍دسمبر ۱۹۲۲ئ)
اس مقام پر اتنا اور واضح کردینا بھی مناسب ہے کہ میاں محمود احمد قادیانی نے اپنی