اس طرح کے کئی اور الہام بھی ہیں۔ جن کی زبان غلط ہے۔ مثلاً: ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔‘‘ (تذکرہ ص۶۱۳)
لفظ ’’ثلج‘‘ اردو میں قطعاً استعمال نہیں ہوتا۔ پھر ثلج یعنی برف آتی نہیں بلکہ برستی ہے۔ مزید یہ کہ برف باری سردیوں میں ہوتی ہے۔ نہ کہ بہار میں، ایام بہار میں برف پگلنے لگ جاتی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی وجہ سے فضائیں سرد ہو جائیں اور بہار میں بھی ایک آدھ دن برف برسنے لگے۔ لیکن بہار کے دن برف باری نہیں۔ بلکہ برف گدازی کے دن ہوتے ہیں۔ اس لئے اس الہام کی زبان خلاف محاورہ اور مضمون خلاف حقیقت ہے۔ یا یہ الہام ؎
تو در منزل ماچور بار بار آئی
خدا ابر رحمت ببار ید یانیٰ
(حقیقت الوحی ص۲۷۷، خزائن ج۲۲ ص۲۹۰)
پہلا مصرعہ بے وزن ہے۔ وزن قائم رکھنے کے لئے ’’باربار‘‘ کو ’’بربار‘‘ پڑھنا ہوگا۔ جو صریحاً غلط ہے۔
جس طرح خود مرزاقادیانی کی زبان ڈھیلی ڈھیلی۔ خلاف محاورہ، عموماً غلط اور کہیں کہیں مہمل بھی ہے۔ یہی حال آپ کے الہامات کا ہے۔ اس سے ایک غیر جانبدار نقاد صرف ایک ہی نتیجہ نکال سکتا ہے کہ یہ الہامات ومقالات سب ایک ہی دماغ کی پیداوار ہیں۔
۷…فارسی توصیف واضافت وحروف فارسی
فارسی مرکب توصیفی میں موصوف پہلے ہوتا ہے۔ مثلاً: بادخنک، گل سرخ، زلف دراز، آب شیریں اور مرکب اضافی میں مضاف پہلے۔ مثلا: گل لالہ، سرد چمن، شاخ گل، نوائے عنادل۔
قاعدہ: فارسی توصیف واضافت صرف فارسی یا عربی الفاظ میں ہوسکتی ہے۔ اگر ایک لفظ ہندی ہو یا دونوں۔ تو اس صورت میں ہندی توصیف واضافت سے کام لینا پڑے گا۔ اردو میں صفت پہلے ہوتی ہے۔ مثلاً: ٹھنڈا پانی، اونچا پیڑ، رسیلی آنکھیں اور مرکب اضافی میں مضاف الیہ پہلے۔ مثلاً: رام کابن، تاج کا ہیرا، مور کی کلغی۔
اگر مرکب کا ایک جزو یا دونوں اجزاء ہندی ہوں تو ان میں فارسی توصیف واضافت جائز نہیں۔ اس لئے:
۱…پائے خر
صحیح ہے اور
لت گدھاغلط ہے