معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔‘‘
زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں۔
جس شخص کے بیانات میں تناقض پایا جائے۔ اس کے متعلق ہم سے نہیں خود مرزاقدیانی سے سنئے۔ فرماتے ہیں: ’’کسی سچیار، عقلمند اور صاف دل انسان کے کلام میں ہرگز تناقض نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی پاگل یا مجنون یا ایسا منافق ہو کہ خوشامد کے طور پر ہاں میں ہاں ملا دیتا ہو۔ اس کا کلام بیشک متناقض ہوجاتا ہے۔‘‘ (ست بچن ص۳۰، خزائن ج۱۰ ص۱۴۲)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اس شخص کی حالت ایک مخبط الحواس انسان کی حالت ہے کہ ایک کھلا کھلا تناقض اپنے کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
اور قول فیصل یہ کہ: ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
قرآن کریم نے اپنے منجانب اﷲ ہونے کی دلیل یہ دی ہے کہ اس میں کوئی بات اختلافی (یعنی متناقض) بات نہیں۔
ان تصریحات کی روشنی میں آپ مرزاقادیانی کے متعلق خود ہی فیصلہ کر لیجئے کہ وہ کیا تھے؟ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
علمی سطح
جن حضرات کو مرزاقادیانی کی تصانیف پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے وہ اس حقیقت سے باخبر ہیں کہ علمی نقطۂ نگاہ سے وہ کس قدر پست ہیں۔ چونکہ یہ موضوع بڑی تفصیل کا متقاضی ہے۔ اس لئے ہم اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتے۔ اس مقام پر ہم صرف دو چار مثالیں پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ جن سے واضح ہوجائے گا کہ مرزاقادیانی کی تاریخی اور دینی معلومات کیسی تھیں۔
تاریخ
فرماتے ہیں: ’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرتﷺ وہی ایک یتم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہوگیا۔‘‘ (پیغام صلح ص۳۸، خزائن ج۲۳ ص۴۶۵)
حالانکہ تاریخ کا ایک ادنیٰ طالب علم بھی جانتا ہے کہ حضور نبی اکرمﷺ کے والد حضورﷺ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوگئے تھے۔