ہے۔ وہ کبھی آگ میں ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ کبھی پانی کے ٹب میں ڈبکیاں لینے لگ جاتا ہے۔ کبھی مرچیں آنکھوں پر مل کر دہائی دینے لگ جاتا ہے اور کبھی پیسہ نگل کر سارے گھر کے لئے پریشانی کا موجب بن جاتا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ راہنمائی انسان کے اندر ودیعت کر کے نہیں رکھ دی گئی۔ بالفاظ دیگر انسان کی کوئی فطرت نہیں۔ یہ جو ہمارے ہاں عام طور پر مشہور ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور خدا نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے۔ یہ سب لاعلمی پر مبنی ہے۔ فطرت، مجبور کی ہوتی ہے۔ جسے اختیار وارادہ دیاگیا ہو۔ اس کی کوئی فطرت نہیں ہوتی۔ اس کے اندر کچھ صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ جنہیں وہ اپنے اختیار وارادہ کے مطابق استعمال کرتا ہے۔میں اپنے موضوع سے دور نکل جاؤںگا۔ اگر میں اس نکتہ کی تفصیل میں چلا جاؤں اس لئے اس مقام پر ان اشارات پر اکتفاء کر کے مجھے اصل موضوع کی طرف آجانا چاہئے۔ (جو حضرات اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں وہ میری کتاب سلیم کے نام خطوط (جلد سوم) میں متعلقہ خط ابلیس وآدم میں وحی کا باب ملاحظہ فرمائیں)
انسانی راہنمائی
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ راہنمائی انسان کے اندر موجود نہیں کہ اسے زندگی کس نہج سے بسر کرنی چاہئے تو اسے یہ راہنمائی حاصل کس طرح سے ہوگی؟ انسانی زندگی کو دوشقوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ ایک اس کی طبیعی زندگی ہے۔ یعنی اس کے جسم یا بدن کی زندگی۔ اس کی اس زندگی کے تقاضے وہی ہیں جو دیگر حیوانات کے ہیں۔ سانس لینا، کھانا، پینا، سونا، افزائش نسل کرنا اور ایک مدت کے بعد مرجانا۔ ان امور کا تعلق قوانین فطرت سے ہے۔ جنہیں انسان عقل وفکر اور غور وتدبر پر مبنی مشاہدہ تجربہ، مطالعہ، تعلیم وتعلم کے ذریعے معلوم کر سکتا ہے۔ اسے اکتسابی علم کہا جاتا ہے۔ یعنی وہ علم جو کسب وہنر اور محنت وکاوش سے حاصل کیا جاسکے۔ عقل وفکر کی بنیادی صلاحیت اور تحصیل علم کی استعداد ہر انسان کو عطاء کر دی گئی ہے۔
اور یہاں سے ایک نئی پرابلم (مشکل) کا آغاز ہوتا ہے۔ انسان مدنی الطبع واقع ہوا ہے۔ یعنی انسانوں نے مل جل کر رہنا ہے۔ اس سے مختلف افراد کے مفاد میں ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر تحفظ خویش، زندگی کا بنیادی تقاضا ہے اور اس تقاضا کے پورا کرنے کے لئے وسائل واسباب کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام حیوانات کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ان میں سے جب کوئی اپنے تحفظ کی طرف سے مطمئن ہو جاتا ہے تو وہ دوسروں کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔ جب ایک بیل کا پیٹ بھر جاتا ہے تو وہ مطمئن ہوکر بیٹھ جاتا ہے۔ اسے اس کی پرواہ نہیں