خدا سے براہ راست علم حاصل ہونا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں دقت پیش آتی تھی کہ وہ خدا کے نبی تھے۔ اس لئے انہیں ان کی واپسی پر نبی تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ اس دشواری کے حل کے لئے یہ کہا گیا کہ وہ ہوںگے تو نبی ہی۔ لیکن رسول اﷲﷺ کی امت میں ہوںگے۔ اس لئے انہیں امتی نبی قرار دیاگیا۔
قرآن کریم میں نہ کسی مجدد کا ذکر ہے نہ مہدی کا اور نہ ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ بذات خود تشریف لانے کا۔ یا ان کے مثیل کے آنے کا۔ مسیح موعود کی اصطلاح بھی غیر قرآنی ہے۔ اس میں کسی مسیح کے آنے کا وعدہ نہیں کیاگیا۔ یہ تمام نظریات ہمارے ہاں روایات کے ذریعے جزو اسلام بن گئے۔ (ان نظریات کا سرچشمہ کون سا ہے اور یہ کس طرح جزو اسلام بن گئے۔ اسے میں نے اپنی کتاب ’’شاہکار رسالت‘‘ میں شرح وبسط سے بیان کیا ہے) چونکہ یہ تصورات بنیادی طور پر ختم نبوت کے نقیض تھے۔ اس لئے انہوں نے بھی دعویٰ نبوت کے لئے راستے کھول دئیے۔ میں نے شروع میں کہا ہے کہ ریاست بہاولپور کی عدالت میں یہ مقدمہ قریب نو سال تک زیرسماعت رہا اور ہندوستان کے جید علماء کرام نے حصہ لیا۔ لیکن فاضل جج کو یہ کہنا پڑا کہ ان حضرات کی اس قدر طول طویل بحثوں کے باوجود ان پر مقام نبوت واضح نہیں ہوسکا اور وہ ختم نبوت کی کنہ وحقیقت کو سمجھ نہیں سکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ تمام حضرات مانتے تھے کہ براہ راست خدا سے علم حاصل کرنے کا امکان، رسول اﷲﷺ کے بعد بھی باقی ہے اور ایسا علم حاصل کرنے والے حضورﷺ کے بعد آتے رہیںگے۔ اس عقیدہ کی موجودگی میں نہ حقیقت نبوت واضح ہو سکتی ہے نہ ختم نبوت کی اہمیت مبرہن۔ اس کے برعکس، یہ عقیدہ، دعوئے نبوت کے حق میں دلائل مہیا کرنے کا موجب بن جاتا ہے۔ آئیے ہم دیکھیں کہ ایسا کس طرح ہوا اور یہاں سے بات کا رخ قادیان کے مرزاغلام احمد قادیانی کے دعاوی کی طرف مڑ جاتا ہے۔
تیسرا باب … تدریجی نبی، مرزاقادیانی کے دعاوی
ابتدائی حالات
مرزاقادیانی اپنے ذاتی کوائف اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’اب میرے سوانح اس طرح پر ہیں کہ میرا نام غلام احمد، والد کا نام غلام مرتضیٰ اور داد کا نام عطا محمد اور میرے پردادا کا نام گل محمد تھا… ہماری قوم مغل برلاس ہے… میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۴۴تا۱۵۹، خزائن ج۱۳ ص۱۶۲تا۱۷۷)