۷…الہام ثلج
ثلج عربی زبان میں برف کو کہتے ہیں۔ جب مرزاقادیانی کے الہامات زلزلہ کی وجہ سے بعض لوگوں میں بے چینی سی پھیل گئی تو اﷲ نے یہ الہام نازل کیا۔ ’’پھر بہار آئی تو آئے ثلج کے آنے کے دن۔‘‘ اور اس کی تشریح یوں فرمائی:
’’دوسرے معنی اس کے عربی میں اطمینان قلب حاصل کرنا ہے۔ گذشتہ دنوں میں زلزلوں کی نسبت کج طبع لوگوں نے شبہات بھی پیدا کئے تھے اور ثلج قلب یعنی کلی اطمینان سے محروم ہوگئے تھے۔ اس لئے بہار کے موسم میں ایک ایسا نشان ظاہر ہوگا۔ جس سے ثلج قلب ہو جائے گا۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۳۸، خزائن ج۲۲ ص۴۷۱،۴۷۲)
کون سا موسم بہار؟
حقیقت الوحی کا تتمہ جس سے یہ اقتباس لیاگیا ہے۔ ۱۹۰۷ء کے اوائل میں لکھا جارہا تھا۔ بظاہر موسم بہار سے ۱۹۰۷ء ہی کا موسم ہوسکتا ہے۔ لیکن نہیں۔ آپ اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں۔ ’’بہار جب دوبارہ (یعنی ۱۹۰۸ء میں) آئے گی تو ایک اور زلزلہ آئے گا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۰، خزائن ج۲۲ ص۱۰۳)
اور چند سطور کے بعد فرماتے ہیں۔ ’’پھر بہار جب بار سوم (یعنی ۱۹۰۹ء میں) آئے گی تو اس وقت اطمینان کے دن آجائیںگے اور اس وقت تک خدا کئی نشان ظاہر کرے گا۔‘‘
(حقیقت الوحی ص۱۰۰، خزائن ج۲۲ ص۱۰۳)
تو واضح ہوگیا کہ الہام ثلج کا تعلق ۱۹۰۹ء کے موسم بہار سے تھا۔ لیکن آپ کا انتقال مئی ۱۹۰۸ء میں ہوگیا۔ تو کیا ۱۹۰۹ء کی بہار میں کوئی ایسا نشان نازل ہوا تھا۔ جو اطمینان قلب کا موجب بنا ہو؟ اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں مل سکتا۔ گھبرانے کی بات نہیں۔ مرزاقادیانی اس پیشین گوئی کو بھی فروری ۱۹۰۷ء میں پورا کر گئے تھے۔ وہ کس طرح؟ فرماتے ہیں۔ ’’یہ پیشین گوئی (ثلج والی) صفائی سے پوری ہوگئی۔ یعنی جب عین بہار کا موسم آیا اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے بھر گئے تب کشمیر اور یورپ کے ملکوں میں برف باری (ثلج، برف) حد سے زیادہ ہوئی۔ چنانچہ آج ہی ۲۵؍فروری ۱۹۰۷ء کو خط کشمیر سے آیا ہے کہ ان دنوں برف تین گز تک زمین پر چڑھ گئی ہے۔‘‘ (تتمہ حقیقت الوحی ص۳۹، خزائن ج۲۲ ص۴۷۲)
یہ خط کشمیر سے چار پانچ روز پہلے یعنی ۲۰؍فروری کو چلا ہوگا۔ کیا ۲۰؍فروری کو عین بہار کا موسم ہوتا ہے اور باغ پھولوں اور شگوفوں سے بھر جاتے ہیں۔ قارئین کرام! آپ بیسیوں موسم بہار