میں رہنا سہنا ہے۔ اس تمدنی زندگی کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے مفادات میں باہمی ٹکراؤ ہوگا۔ جس سے ’’بعضکم لبعض عدوا (البقرہ:۳۶)‘‘ {تم ایک دوسرے کے دشمن ہو جاؤگے۔} اپنے مستقبل کی یہ تصویر دیکھ کر آدم پر افسردگی چھاگئی تو خدا نے کہا کہ اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ ’’فاما یاتینکم منی ہدًی فمن تبع ہدای فلا خوف علیہم ولاہم یحزنون (البقرہ:۳۸)‘‘ {میری طرف سے تمہارے پاس راہنمائی آتی رہے گی۔ جو اس راہنمائی کا اتباع کریںگے انہیں نہ کسی قسم کا خوف ہوگا نہ حزن۔}
وحی خداوندی
اس راہنمائی کے لئے اس نے طریق یہ اختیار کیا کہ اس مقصد کے لئے ایک انسان کو منتخب کر لیا جاتا۔ اسے یہ راہنمائی دی جاتی اور اسے یہ کہہ دیا جاتا کہ اسے دوسرے انسانوں تک بھی پہنچاؤ اور اس پر عمل کر کے بھی دکھاؤ۔ راہنمائی دیئے جانے کے اس منفرد طریق کو وحی کہا جاتا ہے اور جس برگزیدہ انسان کی وساطت سے اسے دوسرے انسانوں تک پہنچایا جاتا۔ اسے نبی یا رسول اور اس ضابطہ وحی کو خدا کی کتاب۔ ان الفاظ کی تشریح اور تفصیلی مفہوم آگے چل کر سامنے آئے گا۔ وحی کا کام انسانی عقل وفکر کو سلب کرنا نہیں۔ عقل وفکر تو فطرت کا بہت بڑا عطیہ ہے۔ جس سے انسان کو نوازا گیا ہے۔ خدا اس عطیہ کو دے کر پھر سے چھین لینے کا پروگرام کیوں بنائے گا؟ وحی کا فریضہ عقل انسانی کی راہنمائی کرنا ہے۔ کائنات میں بعض حقائق تو ایسے ہیں جن کا ادراک عقل انسانی کے بس کی بات ہی نہیں۔ وہ اس کے دائرہ سے باہر ہیں۔ مثلاً ذات خداوندی کی حقیقت، آغاز کائنات (زمان ومکان) کی کیفیت، انسانی ذات کی ماہیت جو فرد کی موت کے بعد بھی زندہ رہتی اور آگے بڑھتی ہے۔ اخروی زندگی کی کنہ وحقیقت وغیرہ۔ ان حقائق کے متعلق وحی خداوندی ایسے دلائل وشواہد بہم پہنچاتی ہے جن کی روشنی میں عقل انسانی ان کی حقیقت وماہیت تک نہ پہنچ سکنے کے باوجود ان کی ہستی کے متعلق مطمئن ہوجاتی ہے۔
دوسری قسم کے امور وہ ہیں جن کا تعلق انسان کی تمدنی زندگی سے ہے۔ ان امور سے متعلق، خدائی راہنمائی ایسے غیر متبدل اصول دیتی ہے۔ جن کا تمام نوع انسان پر یکساں اطلاق ہو سکے اور وہ زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں سے متأثر نہ ہوں۔ مثلاً یہ اصول کہ تمام انسان پیدائش کے اعتبار سے یکساں واجب التکریم ہیں۔ ایک غیر متبدل اصول ہے جس کا اطلاق تمام انسانوں پر یکساں ہوتا ہے اور جو زمان ومکان سے متأثر نہیں ہوسکتا۔ اس قسم کے اصولوں کو دین کی اساسات (بنیادیں) کہا جاتا ہے۔