کی ریڑھ کی ہڈی تک توڑ دی اور ان کے پوتے شاہ اسماعیل شہید نے داستان جہاد کا سرنامہ اپنے درخشندہ خون سے لکھا۔ ایک مجدد وہ تھے اور ایک مجدد یہ ہیں جو نہایت فخر سے کہتے ہیں کہ: ’’میں سولہ برس سے برابر اپنی تالیفات میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ مسلمانان ہند پر اطاعت گورنمنٹ برطانیہ فرض اور جہاد حرام ہے۔‘‘ (اشتہار مورخہ ۱۰؍دسمبر ۱۸۹۴ئ، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۱۲۸)
اور جن کی ساری عمر اپنی جماعت کو یہ تاکید کرتے ہوئے گزر گئی کہ: ’’وہ انگریز کی بادشاہت کو اپنے اولیٰ الامر میں داخل کریں اور دل کی سچائی سے ان کے مطیع رہیں۔‘‘
(ضرورۃ الامام ص۲۳، خزائن ج۱۳ ص۴۹۳)
مجدد
آنے والے کے سلسلہ میں ایک عقیدہ مجدد کا بھی ہے۔ اس عقیدہ کی رو سے کہا جاتا ہے کہ رسول اﷲﷺ کی ایک حدیث ہے کہ ہر صدی کے سر پر خدا ایک ایسے مامور کو بھیجتا رہے گا جو دین کی تجدید کرے گا۔ (اس حدیث کا بخاری اور مسلم میں جو حدیث کی معتبر ترین کتابیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ کہیں ذکر نہیں) اس نظریہ کا وضعی ہونا بالکل بدیہی ہے۔ اس کی رو سے صورت یوں سامنے آتی ہے کہ سو سال کے عرصہ کے اندر دنیا کتنی ہی خراب کیوں نہ ہو جائے خدا ایسے مصلح کو نہیں بھیجے گا اور سوسال کے بعد خواہ دنیا کی حالت کیسی ہی اچھی کیوں نہ ہو۔ مجدد آجائے گا۔ اس قسم کی کیلنڈرانہ بعثتیں مصلحت خداوندی سے بعید ہیں۔
لیکن اس سلسلہ میں اب کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ مرزاقادیانی نے تیرھویں صدی (ہجری) کے آخر میں مجددیت کا دعویٰ کیا۔ اب چودھویں صدی کا آخر آگیا ہے۔ اس لئے سابقہ مجدد کا زمانہ ختم ہورہا ہے۔ اب ایک نیا مجدد آنا چاہئے۔ اس کے آنے پر لاہوری جماعت احمدیہ کا سلسلہ خود بخود ختم ہوجائے گا۔
لیکن نہیں اور یہ حکایت بڑی لذیذ ہے۔
کچھ عرصہ ہوا میں نے اپنے ایک مقالہ میں یہی بات کہی تو اس کے جواب میں انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور (یعنی لاہوری جماعت) کے ترجمان، پیغام صلح کی اشاعت بابت ۲۲؍جولائی ۱۹۷۰ء کے افتتاحیہ میں کہا گیا: ’’اس بلند پایہ مجدد کے متعلق یہ کہنا کہ اس کا زمانہ مجددیت ختم ہوچکا ہے یا ختم ہونے والا ہے اور اب ہمیں نئے مجدد کی تلاش کرنی چاہئے۔ صریح زیادتی ہے۔ حضرت مرزاصاحب نے تبلیغ دین کے لئے جو جماعت بنائی ہے وہ آپ کے تجدیدی کام کو بحسن وخوبی سرانجام دے رہی ہے اور دیتی رہے گی۔ اس لئے ہمیں ضرورت نہیں کہ کسی نئے