۱۱… مرزاقادیانی کی آخری تحریر ’’پیغام صلح‘‘ ہے جو آپ نے رحلت سے صرف دوروز پہلے مکمل فرمائی تھی۔ اس میں فرماتے ہیں۔ ’’میرے ہاتھ پر اس نے صدہا نشان دکھائے ہیں جو ہزارہا گواہوں کے مشاہدہ میں آچکے ہیں۔‘‘ (پیغام صلح ص۱۳، خزائن ج۲۳ ص۴۴۷)
ان اقتباسات کا ملحض یہ ہوا کہ آپ کے نشانات:
۱… ۱۸۹۱ئ میں صدہا
۲… ۱۸۹۳ئ ؍؍ تین ہزار سے کچھ زیادہ
۳… ۱۸۹۹ئ ؍؍ ایضاً
۴… ۱۹۰۰ئ ؍؍ ایک سو سے زیادہ
۵… ۱۹۰۱ئ ؍؍ ایضاً
۶… ۱۹۰۲ئ ؍؍ دس ہزار
۷… ۱۹۰۵ئ ؍؍ ہزارہا
۸… ۱۹۰۶ئ ؍؍ تین لاکھ
۹… اسی سال ؍؍ صدہا
۱۰… ۱۹۰۷ئ ؍؍ ایک لاکھ
۱۱… ۱۹۰۸ئ ؍؍ صدہا
نشانات ایک سو ہوں، دس ہزار ہوں یا تین لاکھ۔ ان تمام کو آج پچاس برس کے بعد پرکھنا مشکل ہے۔ اس لئے ہم سطور ذیل میں صرف دس نشانات پہ بحث کریںگے۔
۱…محمدی بیگم
احمد بیگ ہوشیار پوری مرزاقادیانی کے اقرباء میں سے تھے۔ وہ ایک مرتبہ مرزاقادیانی کے ہاں گئے۔ کیوں؟
’’تفصیل اس کی یہ ہے کہ نامبردہ (احمد بیگ) کی ایک ہمشیرہ ہمارے ایک چچازاد بھائی غلام حسین کو بیاہی گئی تھی۔ غلام حسین عرصہ پچیس سال سے مفقود الخبر ہے۔ اس کی زمین جس کا حق ہمیں پہنچتا ہے۔ نامبردہ کی ہمشیرہ کے نام کاغذات سرکاری میں درج کرادی گئی تھی۔ اب حال کے بندوبست میں نامبردہ نے اپنی ہمشیرہ کی اجازت سے یہ چاہا کہ وہ زمین اپنے بیٹے محمد بیگ کے نام بطور ہبہ منتقل کرادیں۔ چونکہ وہ ہبہ نامہ بجز ہماری رضامندی کے بیکار تھا۔ اس لئے مکتوب الیہ (احمد بیگ) نے بہ تمام تر عجزوانکساری ہماری طرف رجوع کیا۔ تاہم اس ہبہ پر دستخط