ڈائری میں لکھا ہے کہ: ’’جب میں حج کرنے گیا تھا تو اپنے طور پر جماعت کراکر مسجد حرام میں نماز پڑھتا تھا۔‘‘ (بحوالہ الفضل مورخہ ۷؍مارچ ۱۹۲۱ئ)
ان تصریحات کی روشنی میں آپ سوچئے کہ کیا کوئی بات بھی ایسی ہے جس میں احمدی حضرات مسلمانوں سے الگ نہ ہوچکے ہوں۔ اس مقام پر صاحبزادہ بشیر احمد قادیانی کا وہ قول ایک بار پھر نقل کر دینا مناسب ہوگا۔ جسے پہلے بھی درج کیا جاچکا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ’’غیر احمدیوں سے ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیاگیا۔ ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا۔ اب باقی رہ گیا جو ہم ان کے ساتھ مل کر کرسکتے ہیں۔‘‘
(کلمتہ الفصل مندرجہ رسالہ ریویو اوف ریلیجنز نمبر۴ ج۱۴ ص۱۶۹)
جداگانہ کلمہ
اس مقام پر یہ سوال پیدا ہوگا کہ جب احمدی حضرات اپنے آپ کو ہر لحاظ سے مسلمانوں سے الگ سمجھتے ہیں تو پھر اپنا کلمہ بھی الگ کیوں نہیں وضع اور اختیار کر لیتے۔ کلمہ کا مسئلہ بڑا نازل ہے۔ دیگر معاملات میں الگ ہو جانے سے عند الضرورت تاویلات سے کام لیا جاسکتا ہے۔ لیکن کلمہ کے الگ کر لینے سے کسی تاویل کی گنجائش نہیں رہتی اور اس سے مسلمان عوام کے مشتعل ہوجانے کا اندیشہ بدیہی ہے۔ (جیسا کہ آگے جا کر بتایا جائے گا) احمدی حضرات مسلمانوں سے کھلے بندوں الگ ہو جانا۔ سردست اپنے مفاد ومصلحت کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس لئے کلمہ میں محمد کے بجائے احمد کا لفظ رکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔ لیکن احمد یہ سن کر متعجب ہوںگے کہ یہ حضرات کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ میں محمد سے مراد مرزاقادیانی ہی لیتے ہیں۔
مرزابشیر احمد قادیانی فرماتے ہیں: ’’اگر ہم بفرض محال یہ بات مان بھی لیں کہ کلمہ شریف میں نبی کریمﷺ کا اسم مبارک اس لئے رکھا گیا ہے کہ آپ آخری ہیں تو تب بھی کوئی حرج واقعہ نہیں ہوتا اور ہم کو نئے کلمہ کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کیونکہ مسیح موعود نبی کریمﷺ سے الگ چیز نہیں۔ جیسا کہ وہ خود فرماتا ہے۔ ’’صارو جودی وجودہ‘‘ نیز ’’من فرّق بینی وبین المصطفیٰ فما عرفنی ومارائی‘‘ اور یہ اس لئے ہے کہ اﷲتعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ ایک دفعہ اور خاتم النبیین کو دنیا میں مبعوث کرے گا۔ جیسا کہ آیت ’’آخرین منہم‘‘ سے ظاہر ہے۔ پس مسیح موعود خود محمد رسول اﷲﷺ ہے جو اشاعت اسلام کے لئے دوبارہ دنیا میں تشریف لائے۔ اس لئے ہم کو کسی نئے کلمہ کی ضرورت نہیں۔ ہاں اگر محمد رسول اﷲﷺ کی جگہ کوئی اور آتا تو