حضرت مسیح علیہ السلام کی اس ’’سیرت‘‘ کو پیش نظر رکھ کر مرزاقادیانی کا یہ ارشاد بغور مطالعہ فرمائیے۔ ’’میں مثیل مسیح ہوں۔ یعنی حضرت مسیح کے بعض روحانی خواص طبع اور عادات اور اخلاق وغیرہ کے خداتعالیٰ نے میری فطرت میں بھی رکھے ہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۱۹۰، خزائن ج۳ ص۱۹۲)
چوتھا باب … تاریخ بعثت
حضورﷺ کی تاریخ بعثت سب کو معلوم ہے کہ ۶۱۰ء میں حضرت جبریل علیہ السلام بالکل پہلی مرتبہ غار حرا میں آئے تھے اور حضورﷺ سے کہا تھا۔ ’’اقرائ۰ باسم ربک الذی خلق۰ خلق الانسان من علق۰ اقرا وربک الاکرم۰ الذی علم بالقلم (العلق:۱تا۴)‘‘ {اے محمدؐ پڑھ اور اس اﷲ کا نام لے کر پڑھ۔ جس نے انسان کو ارتقائی منازل میں جونک سے پیدا کیا۔ اس عظیم رب کا نام لے کر پڑھ۔ جس نے قلم کو علم دیا۔}
لیکن مرزاقادیانی کی تاریخ وحی کون سی ہے۔ یہ معلوم کرنا کارے دارد، مرزاقادیانی کی علمی تصانیف بہتّر(۷۲) ہیں۔ جن میں سے ہر کتاب آپ کے نشانات دلائل نبوت، زمانہ رسالت اور الہامات سے لبریز ہے اور تقریباً ہرکتاب میں کئی کئی مرتبہ آپ نے اپنے دعوائے رسالت کی تاریخ بیان کی ہے۔ ہم باقی کتابوں کو چھوڑتے ہیں اور صرف دس کتابیں کھول کر آپ کی تاریخ رسالت معلوم کرنا چاہتے ہیں۔ ہم اوراق گذشتہ میں واضح کر چکے ہیں کہ مرزاقادیانی کی وحی قرآن وتورات کی ہم پایہ تھی۔ اس سلسلے کا پیغام کب نازل ہوا۔ اقتباسات ذیل کو دیکھئے۔
۱…براہین احمدیہ، سال تصنیف ۸۴،۱۸۸۰ء
اس کتاب میں ایک مقام پر ۱۸۶۹ء کا ایک الہام درج کرتے ہیں۔ جسے وہ آخر تک اپنی دیگر تصانیف میں دہراتے چلے جاتے ہیں اور وہ یہ ہے۔ ’’وہ تجھے بہت برکت دے گا۔ یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۵۲۱ حاشیہ در حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۲۲)
۲…ازالہ اوہام، تاریخ تصنیف ۲؍ستمبر ۱۸۹۱ء
’’وہ آدم اور ابن مریم یہی عاجز ہے اور اس عاجز کا یہ دعویٰ دس برس سے شائع ہورہا ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۹۵، خزائن ج۳ ص۴۵۷)
ازالہ ۱۸۹۱ء کی تصنیف ہے۔ اس سے دس برس کم کیجئے۔ باقی ۱۸۸۱ئ۔