اسلامی حکومت کا وجود مرزاقادیانی اور ان کے متبعین کے لئے کسی صورت میں قابل قبول اور قابل برداشت نہیں ہوسکتا۔
شرم کیوں آتی ہے
حکومت برطانیہ کی اس حد تک خوشامد ایک ایسی حرکت تھی جس کے احساس سے اور تو اور خود مرزاقادیانی کے متبعین کو بھی شرم آنے لگ گئی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں میاں محمود احمد قادیانی کو انہیں ڈانٹ کر کہنا پڑا کہ: ’’حضرت مسیح موعود نے فخریہ لکھا ہے کہ میری کوئی کتاب ایسی نہیں جس میں میں نے گورنمنٹ کی تائید نہ کی ہو۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں نے غیروں سے نہیں بلکہ احمدیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود کی ایسی تحریریں پڑھ کر شرم آجاتی ہے۔ انہیں شرم کیوں آتی ہے؟ اس لئے کہ ان کے اندر کی آنکھ کھلی نہیں۔‘‘ (الفضل بابت ۷؍جولائی ۱۹۳۲ئ)
مرزاقادیانی کے بعد
مرزاقادیانی یہ تبلیغ کرتے کرتے دنیا سے چلے گئے اور اس کے بعد ان کے متبعین نے بھی اس سلسلے کو جاری رکھا اور اس کے صلہ میں (یا یوں کہئے کہ خود اپنے مفاد کی خاطر) انگریزی حکومت نے بھی اپنی اعانت اور حفاظت کا سلسلہ بدستور قائم رکھا۔ ہندوستان ہی میںنہیں بلکہ دیگر ممالک میں بھی چنانچہ میاں محمود احمد (خلیفہ ثانی) نے اعلان کیا کہ: ’’گورنمنٹ برطانیہ کے ہم پر بڑے احسان ہیں اور ہم بڑے آرام اور اطمینان سے زندگی بسر کرتے اور مقاصد کو پورا کرتے ہیں اور اگر دوسرے ممالک میں تبلیغ کے لئے جائیں تو وہاں بھی برٹش گورنمنٹ ہماری مدد کرتی ہے۔‘‘
(برکات خلافت ص۶۵)
تقسیم سے پہلے ہندوستان میں مالابار کے علاقہ میں احمدیوں کے خلاف ایک تحریک اٹھی تھی۔ حکومت ہند نے اس میں احمدیوں کی حفاظت کا خاص انتظام کیا۔
’’ڈپٹی کمشنر نے یہ حکم دیا کہ اب اگر احمدیوں کو کوئی تکلیف ہوئی تو مسلمانوں کے جتنے لیڈر ہیں۔ ان سب کو نئے قانون کے ماتحت ملک بدر کر دیا جائے گا۔‘‘ (انوار خلافت ص۹۶)
جاسوس جماعت
حکومت کے ساتھ ان کے یہ تعلقات اس قدر گہرے اور پراسرار تھے کہ لوگوں میں یہ چرچا عام ہونے لگا کہ یہ جماعت حکومت کی جاسوس ہے۔ ۲۶؍مارچ ۱۹۳۴ء کو ان حضرات کے اکابرین نے حضور وائسرائے کی خدمت میں ایک ایڈریس پیش کیا جس میں انہوں نے عرض کیا کہ: ’’جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ایک مقررہ شاہراہ ہے۔ جس سے وہ کبھی ادھر ادھر نہیں