جماعت مؤمنین کی یہ دعاء کہ ہمیں ان لوگوں کی راہ دکھا جن پر تو نے اپنا انعام کیا۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کی رفاقت میں یہ سفر طے کریں۔ انہی کے نقوش قدم پر چلتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچیں۔ یہ وہی رفاقت ہے جس سے محروم انسانوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ: ’’ویوم یعض الظالم علیٰ یدیہ یقول یلیتنی اتخذت مع الرسول سبیلا (الفرقان:۲۷)‘‘ {اس دن ظالم اپنی انگلیاں کاٹیں گے اور کہیںگے کہ اے کاش ہم نے بھی رسول کی رفاقت میں سفر زندگی طے کیا ہوتا۔ ہم نے بھی وہی راستہ اختیار کیا ہوتا جسے رسول نے بتایا اور اختیار کیا تھا۔}
۴… اور آخری بات یہ کہ اگر کسی کی معیت سے انسان خود بھی وہی کچھ بن جاتا ہے تو قرآن کریم میں متعدد مقامات پر آیا ہے کہ: ’’ان اﷲ مع الصابرین‘‘ یا ’’ان اﷲ مع المتقین‘‘ تو (ان حضرات کی دلیل کی رو سے) صابرین اور متقین کو خدا بن جانا چاہئے۔
آپ دیکھتے ہیں کہ یہ حضرات (اپنے دلائل میں) کس طرح تنکوں کے پل بناتے ہیں اور اس پر سے ہاتھی گذارنے کی کوشش کرتے ہیں۔
محدثیت
مرزاقادیانی نے شروع میں کہا تھا کہ میرا دعویٰ نبوت کا نہیں۔ محدثیت کا ہے۔ لاہوری حضرات اسے بڑی شدومد سے پیش کرتے ہیں۔ آئیے دیکھیں کہ اس دعویٰ کا پس منظر کیا ہے اور اس کی بنیاد کو میں نے اس بحث کو اپنی کتاب ’’شاہکار رسالت‘‘ کے آخری باب میں بڑی شرح وبسط سے لکھا ہے۔
قرآن کریم میں محدث کا لفظ تک بھی نہیں آیا۔ جب مرزاقادیانی پر یہ اعتراض کیا گیا کہ محدث کا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں۔ آپ یہ دعویٰ کیسے کرتے ہیں تو انہوں نے فرمایا: ’’آپ لوگ کیوں قرآن شریف میں غور نہیں کرتے اور کیوں سوچنے کے وقت غلطی کھا جاتے ہیں۔ کیا آپ صاحبوں کو خبر نہیں کہ صحیحین سے ثابت ہے کہ آنحضرتﷺ اس امت کے لئے بشارت دے چکے ہیں کہ اس امت میں بھی پہلی امتوں کی طرح محدث پیدا ہوںگے اور محدث بفتح دال وہ لوگ ہیں جن سے مکالمات ومخاطبات الٰہیہ ہوتے ہیں اور آپ کو معلوم ہے کہ ابن عباس کی قرأت میں آیا ہے۔ ’’وما ارسلنا من قبلک من رسول ولا نبی ولا محدث‘‘ (آخر تک) پس اس آیت کی رو سے بھی جس کو بخاری نے بھی لکھا ہے۔ محدث کا الہام یقینی اور قطعی ثابت ہوتا ہے۔ جس میں دخل شیطان کا قائم نہیں رہ سکتا۔‘‘ (براہین احمدیہ نمبر۴ ص۵۴۸ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۶۵۵)