حالانکہ خدا نے صریحاً فرمایا تھا۔ ’’یہ طاعون اس حالت میں فرو ہوگی۔ جب کہ لوگ خدا کے فرستادہ کو قبول کرلیںگے۔‘‘ (دافع البلاء ص۹، خزائن ج۱۸ ص۲۲۹)
۵…الہام عمر
مرزاقادیانی نے الہام عمر کو اپنی تصانیف میں سو مرتبہ سے زیادہ دہرایا ہے۔ ’’ثمانین حولاً اوقریباً من ذالک اوتزید علیہ‘‘ اور اس کا ترجمہ یوں فرمایا ہے۔ ’’تیری عمر اسی برس کی ہوگی یا دوچار کم یا چند سال زیادہ۔‘‘ (ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۳۰، خزائن ج۱۷ ص۶۶)
اس کی مزید تشریح یوں فرمائی ہے۔ ’’فبشرنا ربنا بثمانین سنۃ اوھوا کثر عدداً‘‘ اﷲ نے مجھے بشارت دی ہے کہ تیری عمر اسی برس یا کچھ زیادہ ہوگی۔
(مواہب الرحمان ص۲۱، خزائن ج۱۹ ص۲۳۹)
اوّل تو یہ الہام ہی عجیب ہے۔ اسی برس، دو چار کم یا چند سال زیادہ۔ کیا اﷲ مستقبل کے واقعات سے بے خبر ہے؟ کیا الہام نازل کرتے وقت اسے معلوم نہیں تھا کہ آپ کی وفات ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو ہوگی۔ کیا اﷲ کو آپ کی تاریخ ولادت بھول گئی تھی؟ اگر یاد تھی اور تاریخ وفات بھی معلوم تھی تو پھر الہام میں یہ اظہار تجاہل دو چار سال کم یا چند سال زیادہ کیوں؟ جس شخص کو اپنے مرحوم بیٹے کی تاریخ ولادت ووفات ہر دو معلوم ہوں اور جمع وتفریق کا قاعدہ بھی جانتا ہو۔ وہ کبھی نہیں کہے گا کہ میرے بیٹے کی عمر بیس برس یا دو چار کم یا چند سال زیادہ تھی۔ یہ اشتباہ وتجاہل اسی شخص کے بیان میں ہوسکتا ہے جو تاریخ ولادت وفات ہر دو سے ناواقف ہو اور یا اس قدر ان پڑھ ہو کہ سال وفات میں سے سنین حیات تفریق کر کے حاصل نہ بتاسکتا ہو۔ پھر عجیب تر یہ کہ تشریح الہام ’’اسی برس یا کچھ زیادہ‘‘ کا تو ذکر ہے۔ لیکن ’’دوچار کم‘‘ کا کوئی ذکر نہیں چلئے۔ اس بیش وکم کو چھوڑئیے اور اسی کو پیش نظر رکھئے کہ الہام کا مرکزی عدد یہی ہے۔
مرزاقادیانی نے اپنی تصانیف میں تاریخ ولادت کہیں ذکر نہیں فرمائی۔ صرف اتنا باربار فرماتے ہیں کہ میں ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء کو پیدا ہوا تھا اور نہ آپ کے سوانح نگاروں نے یہ تکلیف کی کہ سول سرجن گرداسپور کے دفتر سے آپ کی تاریخ ولادت معلوم کر لیتے۔ اتنے بڑے روحانی رہنما کے مریدوں کا یہ تساہل قابل افسوس ہے۔
’’میری پیدائش ۱۸۳۹ء یا ۱۸۴۰ء میں سکھوں کے آخری وقت میں ہوئی اور ۱۸۵۷ء میں سولہ برس کا یا سترھویں برس میں تھا۔‘‘ (کتاب البریہ ص۱۵۹ حاشیہ، خزائن ج۱۳ ص۱۷۷)