بیان (احمدیت اور اسلام) میں اس کی وجہ صاف صاف بیان کردی تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس کی ساری وجہ سیاسی ہے۔ احمدی حضرات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ شمار کراکر وہ ان تمام مفادات سے محروم ہو جائیںگے جو سیاسی طور پر مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ بہائیوں کی مثال ان حضرات کے سامنے تھی کہ انہوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ کر لیا تو کس طرح ان مفادات سے محروم رہ گئے اور حالت یہ ہوگئی کہ ؎
اکیلے پھر رہے ہیں یوسف بے کارواں ہوکر
مفادات کے سلسلہ میں بڑے بڑے امور کو چھوڑئیے۔ صرف سرکاری ملازمتوں کے شعبہ کو لیجئے۔ ہندوستان میں جب سرکاری ملازمتوں میں تناسب ہوا تو ہندوؤں کے لئے ساڑھے چھیاسٹھ فیصد مسلمانوں کے لئے ۲۵ فیصد اور بقایا ساڑھے آٹھ فیصد دیگر اقلیتوں کے لئے طے ہوا تھا۔ دیگر اقلیتوں میں سکھ، پارسی، ہریجن، بدھ، جین، بہائی سب شامل تھے۔ ظاہر ہے کہ اگر احمدی بھی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ شمار کراتے تو یہ انہی دیگر اقلیتوں کے زمرے میں شامل ہو جاتے۔ اس سے ان کے حصے میں جس قدر ملازمتیں آسکتیں ظاہر ہے کہ اپنے آپ کو دس بارہ کروڑ مسلمانوں کا حصہ شمار کرانے سے یہ ۲۵فیصدی میں شریک ہوگئے۔ اسی سے دیگر مفادات کا اندازہ بھی لگا لیجئے۔
یہ وجہ تھی کہ جو یہ حضرات اپنے ایمان کی رو سے اپنے آپ کو مسلمانوں (بقول ان کے کافروں) سے الگ تسلیم کرنے کے باوجود اپنا شمار مسلمانوں میں کرانے پر مصر رہے اور مصر چلے آرہے ہیں۔ اس سے آپ نے سمجھ لیا ہوگا کہ علامہ اقبالؒ نے کیوں کہا تھا کہ ان حضرات کے مقابلہ میں بہائیوں کا مسلک دیانتدارانہ تھا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت برطانیہ نے بھی ان کے اس یکسر غیر منطقی اور غیرمعقول انداز سے چشم پوشی کیوں کی؟ اس سوال کا جواب تشریح طلب ہے اور بڑا دلچسپ۔ اس کے لئے آئندہ باب سامنے لائیے۔
چھٹا باب … یہ تحریک دراصل سیاسی تھی
حقیقت یہ ہے کہ احمدیت کی تحریک مذہبی تھی ہی نہیں۔ یہ ایک سیاسی تحریک تھی جو انگریزوں کی پیدا (یا پرورش) کردہ تھی۔ تفصیل اس اجمال کی غور سے سننے کے قابل ہے۔
حکومت برطانیہ کا خطرہ
انگریز نے سات سمندر پار سے آکر ہندوستان میں حکومت قائم کی۔ اپنی حکومت کے