ساتواں باب … مسئلہ جہاد
آپ اس حقیقت سے آشنا ہیں کہ تقریباً نصف قرآن تعلیم جہاد پہ مشتمل ہے۔ جہاد کے بغیر کوئی قوم ایک گھنٹے کے لئے بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ یہ دنیا اشرار وفجار سے لبریز ہے۔ یہاں بیسیوں اقوام ایسی موجود ہیں جو دوسروں کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے میں کبھی پس وپیش نہیں کرتیں۔ گذشتہ ساٹھ برس سے فرانس برابرمراقش کے سینے پر سوار ہے۔ بعض اقوام مغرب مدت سے چین اور جزائر شرق الہند کی دولت کو سمیٹ رہی ہیں۔ انگریز مدت سے عراق، ایران اور مصر کے وسائل دولت پہ قابض ہے اور یہ محض اس لئے کہ یہ کمزور اقوام دانت کے بدلے دانت توڑنے کی طاقت نہیں رکھتیں۔
مہاتما گاندھی کا فلسفۂ عدم تشدد اور مرزاقادیانی کا اصول عدم جہاد۔ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے کہ اقوام عالم کا ہر فرد بے حد بھلے مانس مرنجان مرنج، صابر وقانع اور انصاف پسند بن جائے۔ چونکہ دنیا کے اڑھائی ارب انسان کو اس قسم کے سانچے میں ڈھالنا ناممکن ہے اور چونکہ قدم قدم پر ہمارا واسطہ بدکاروں، جفاکاروں اور ظالموں سے پڑتا ہے۔ اس لئے بچاؤ کے لئے کم از کم اتنا سامان اپنے پاس رکھنا ضروری ہے کہ جس سے دشمن مسلح ہو۔ اگر دشمن کے پاس برین گن ہوتو آپ صرف لاٹھی سے اپنی حفاظت نہیں کر سکتے۔ اسی حفاظت کا دوسرا نام جہاد ہے۔ اسلام نے مندرجہ ذیل صورتوں میں جہاد کی اجازت دی ہے۔
اوّل… جب کوئی ظالم تمہیں ہدف ستم بنائے۔ ’’اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا (الحج:۳۹)‘‘ {مظلوموں کو جہاد کی اجازت دی جاتی ہے۔}
دوم… جب کوئی بلاوجہ حملہ کر دے۔ ’’وقاتلوالذین یقاتلونکم ولا تعتدوا (البقرہ:۱۹۰)‘‘ {حملہ آوروں سے لڑو۔ لیکن حد سے مت بڑھو۔}
سوم… ضعیفوں، عورتوں اور بچوں کی حفاظت کے لئے۔ ’’مالکم لا تقاتلون فی سبیل اﷲ والمستضعفین من الرجال والنساء والوالدان الذین یقولون ربنا اخرجنا من ہذہ القریۃ الظالم اہلہا (النسائ:۷۵)‘‘ {تم کیوں ان کمزور مردوں، عورتوں اور بچوں کے لئے جنگ نہیں کرتے۔ جو تنگ آکر دہائی دیتے ہیں کہ اے رب ہمیں اس بستی سے نجات دے۔ جہاں کے باشندے بڑے ظالم واقع ہوئے ہیں۔}