۵… اگر کسی فارسی یا عربی لفظ کی جمع ہندی طریقے پہ بنائی جائے۔ مثلاً مسجد سے مسجدوں اور کتاب سے کتابوں۔ تو ایسی جمع اردو کا لفظ تصور ہوگی اور فارسی توصیف واضافت یہاں بھی ناجائز ہوگی۔ اس لئے محراب مساجد درست ہے اور محراب مسجدوں غلط۔ لیکن مرزاقادیانی فرماتے ہیں۔ ’’قلت بارشوں سے تو صرف غیر نہری فصلوں کا نقصان متصور ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۴۰، خزائن ج۲۲ ص۴۷۳)
’’یہ حصہ تو کثرت بارشوں کے متعلق ہے۔‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۴۴، خزائن ج۲۲ ص۴۷۷)
۸…تذکیر وتانیث
ہر زبان میں بعض اشیاء مذکر ہوتی ہیں اور بعض مونث اور تحریر وتقریر میں اس امتیاز کو قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ چند سال ہوئے مجھے ایک پٹھان لیڈر کی تقریر سننے کا اتفاق ہوا۔ اس کی زبان کچھ اس قسم کی تھی۔ ’’خوچہ قائداعظم کہتی ہے کہ وہ کشمیر کی خاطر لڑے گی۔ ہمارا یہ بادشاہی خو اپنا ہے۔ ہم اس پر خوبیٹھ کر سوچھے گی۔ وغیرہ وغیرہ۔‘‘
فہمیدہ لوگ اس تقریر پہ ہنس رہے تھے۔ کیوں؟ صرف اس لئے کہ فاضل مقرر نر ومادہ میں تمیز کرنا نہیں جانتا تھا۔ مرزاقادیانی کی تصانیف میں بھی یہ امتیاز بہت کم قائم رکھاگیا ہے۔ چند مثالیں ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’صرف دو سبیل ہیں۔ تیسرا کوئی سبیل نہیں۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۴۱، خزائن ج۳ ص۳۹۱)
سبیل مؤنث ہے۔
۲… ’’بعض نے تیری کلام کے بیّنات… تیرے کلام کے دلالات۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۶۰، خزائن ج۳ ص۴۰۲)
بینات مؤنث ہے اور خدا جانے یہ دلالات کیا چیز ہے؟
۳… ’’صحیح حدیث سے مسیح کے ظہور کا کوئی زمانہ۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۵۶۸، خزائن ج۳ ص۴۰۶)
ظہور مذکر ہے۔
۴… ’’اور جیسی موسوی شریعت کا ابتداء موسیٰ سے ہوا۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۶۴۸، خزائن ج۳ ص۴۵۰)