کہ اشاعت اسلام کے لئے جہاد حرام ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ یہ جائز کب تھا۔ کیا حضورﷺ یا آپؐ کے صحابہ کرامؓ یا بعد کے روشن خیال سلاطین نے کوئی ایک آدمی بھی بزور شمشیر مسلمان بنایا تھا؟ اگر نہیں تو پھر آپ نے وہ کون سی چیز حرام کی جو پہلے جائز تھی؟ جواز جہاد کی صرف چار صورتیں ہیں۔
۱… قیام امن۔ ۲… مدافعت۔
۳… مقابلۂ ظلم۔ ۴… حمایت مظلوم۔
یہ چاروں صورتیں مذہبی ودینی ہیں۔ ہرصورت کو اﷲ نے اپنی راہ (فی سبیل اﷲ) کہا ہے۔ جو کوئی بھی ان چار صورتوں میں تلوار اٹھائے گا وہ گویا مذہب کے چند اہم اصولوں یعنی قیام امن، حمایت مظلوم وغیرہ کی حفاظت کر رہا ہوگا۔ ہر ایسا جہاد دینی، مذہبی، روحانی اور فی سبیل اﷲ کہلائے گا۔ اسلام میں کوئی ایسا جہاد موجود ہی نہیں۔ جس کا مقصد ملک گیری، نو آبادیات کا حصول یا معدنی وزرعی دولت پہ قابض ہونا ہو۔ جب قرآن کی تلوار ہے ہی دینی، روحانی اور اخلاقی، تو پھر اس شعر کا کیا مطلب ؎
اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال
دین کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ ص۲۶، خزائن ج۱۷ ص۷۷)
دین کے لئے حرام ہے تو کیا بے دینی کے لئے جائز ہے۔ ایران اور جزائر شرق الہند کے روغنی چشموں کے لئے حلال ہے؟ دوسروں کو غلام بناکر ان کی بیگمات کے کپڑے نوچنے کے لئے روا ہے؟ اگر نہیں تو پھر مسیح موعود نے انگریزوں کو اس دھاندلی سے کیوں نہ روکا؟ حیرت ہے کہ انگریز کا جہاد تجوریاں بھرنے کے لئے جائز اور ہمارا جہاد اپنی مدافعت یا کسی مظلوم کی حمایت کے لئے حرام ہے؟
بہت اچھا صاحب! جہاد حرام سہی۔ لیکن یہ کیا بات ہے کہ حضرت مرزاقادیانی انگریز کی راہ میں جان چھڑکنے اور خون تک بہانے کے لئے تیار نظر آتے ہیں۔ جہاد تو ہوگیا حرام۔ پھر خون کس کھاتے میں جائے گا کہ اﷲتعالیٰ مسیح موعود سے مواخذہ نہیں کرے گا کہ تم نے جہاد کو حرام قرار دینے کے بعد انگریز کی خاطر کیوں جہاد کیا؟ اپنا خون کیوں بہایا؟ اور ہماری وحی کی مخالفت کیوں کی؟
مرزاقادیانی نے مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ء کو گورنر پنجاب کی خدمت میں ایک عرضی بھیجی۔ جس کا مضمون یہ تھا۔ ’’جیسے جیسے میرے مرید بڑھیںگے۔ ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد