دوسرا باب … چند بنیادی اصطلاحات
مسئلہ ختم نبوت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کریم کی چند بنیادی اصطلاحات کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے۔ اس سلسلۂ میں اس حقیقت کو پیش نظر رکھئے کہ قرآن مجید خدا کا کلام ہے۔ لیکن وہ نازل ہوا تھا عربوں کی زبان میں۔ (اس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے) دنیا کی ہر زبان کی طرح عربی زبان کے الفاظ کے عام معانی لغوی ہوتے ہیں۔ لیکن جب وہ الفاظ بطور اصطلاح استعمال کئے جائیں گے تو ان کے معانی مختص اور متعین ہو جائیںگے۔ قرآن کریم کے الفاظ کی بھی یہی کیفیت ہے۔ ان الفاظ کے عام معانی لغوی ہیں۔ لیکن جب وہ قرآنی اصطلاح کے طور پر سامنے آئیںگے تو ان کا مفہوم وہی ہوگا جسے قرآن مجید نے متعین کر دیا ہے۔ مثلاً لفظ رسول کے لغوی معنی پیغام رساں کے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ لفظ معانی میں بھی آیا ہے۔ لیکن اصطلاحی طور پر رسول سے مراد ہے وہ منتخب شخصیت جسے خدا کے احکام بذریعہ وحی ملتے تھے اور وہ انہیں دوسرے انسانوں تک پہنچاتا تھا۔ قرآنی آیات کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ اس مقام پر متعلقہ لفظ کے لغوی معانی لئے جائیںگے یا اصطلاحی۔ ہمارے ہاں قرآن مجید کے ترجموں میں بالعموم اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھاگیا۔ جس کی وجہ سے قرآنی تعلیم کے سمجھنے میں غلط مبحث بھی ہوجاتا ہے اور مغالطہ آفرینی کے امکانات بھی پیدا۔ (تفصیل ان اشارات کی آگے چل کر ملے گی) اس تمہید کے بعد آئیے قرآن مجید کی چند بنیادی اصطلاحات کی طرف جو ہمارے موضوع پیش نظر سے متعلق ہیں۔
آسمانی راہنمائی
اﷲتعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا تو اشیائے کائنات کی ربوبیت کا ذمہ بھی خود ہی لیا۔ ربوبیت کے معنی ہیں۔ کسی شے کی اس کے نقطۂ آغاز سے پرورش کرتے ہوئے اسے اس کے مقام تکمیل تک پہنچادینا۔ ظاہر ہے کہ ارتقاء کا یہ راستہ طے کرنے کے لئے راہنمائی کی ضرورت ہوگی۔ خالق کائنات نے یہ راہنمائی اشیائے کائنات کے اندر رکھ دی۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام سے کہا کہ تم جس رب کی طرف دعوت دیتے ہو وہ رب کون سا ہے۔ جواب ملا ’’ربنا الذی اعطیٰ کل شیٔ خلقہ ثم ہدیٰ‘‘ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر شے کو پیدا کیا