یہ تھا محمدی بیگم کے نکاح کا وہ واقعہ جس نے بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ ہم اپنی طرف سے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔ یہ واقعہ اپنا تبصرہ خود آپ ہے۔
یہ ہیں مرزاقادیانی کی پیش گوئیوں کی چند ایک مثالیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ کس قدر جھوٹی ثابت ہوئیں۔ ان کی جرأت اور حق گوئی کی کیفیت یہ تھی کہ جب ان کے مخالفین نے ان پیش گوئیوں کی بناء پر ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی عدالت میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ ۱۰۷ کے تحت مقدمہ دائر کر دیا تو انہوں نے معافی مانگ لی اور عدالت میں اقرار نامہ داخل کر دیا کہ میں آئندہ نہ خدا سے اس قسم کی دعاء کیا کروںگا اور نہ ہی ایسی پیش گوئیاں شائع کروںگا۔ (تفصیل اس کی آپ کو ذرا آگے چل کر مقام نبوت کے عنوان میں ملے گی)
بدکلامی
مرزاقادیانی کی پیش گوئیاں ایسی نہیں ہوتی تھیں۔ بلکہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف جس قسم کی بدزبانی سے کام لیا کرتے تھے وہ بھی کچھ کم قابل اعتراض نہیں ہوتی تھیں۔ مثلاً وہ انہیں ’’ذریۃ البغایہ‘‘ یعنی بدکار عورتوں کی اولاد کہا کرتے تھے۔ (آئینہ کمالات اسلام ص۵۴۸، خزائن ج۵ ص۵۴۸) وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں: ’’دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔‘‘ (نجم الہدیٰ ص۵۳، خزائن ج۴ ص ایضاً)
وہ دوسری جگہ لکھتے ہیں: ’’اب جو شخص اس صاف فیصلہ کے خلاف شرارت اور عناد کی راہ سے بکواس کرے گا اور اپنی شرارت سے باربار کہے گا کہ عیسائیوں کی فتح ہوئی اور کچھ شرم وحیا کو کام میں نہیں لائے گا اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جائے گا کہ اس کو ’’ولد الحرام‘‘ بننے کا شوق ہے اور وہ حلال زادہ نہیں ہے۔‘‘ (انوار الاسلام ص۳۰، خزائن ج۹ ص۳۱)
ضمناً اپنے والد ماجد کے تتبع میں میاں محمود قادیانی بھی اسی قسم کی زبان استعمال کیا کرتے تھے۔ مثلاً انہوں نے ۱۹۳۲ء کے سالانہ جلسہ کی افتتاحی تقریر میں فرمایا تھا کہ جو لوگ ہماری جماعت سے علیحدہ رہیںگے ان کی آواز ایسی ہی غیر مؤثر اور ناقابل التفات ہوگی۔ جیسی کہ موجودہ زمانے میں چوہڑے چماروں کی ہے۔
(اخبار الفضل قادیان نمبر۹۰ ج۲۰ ص۵، مورخہ ۲۹؍جنوری ۱۹۳۳ئ)
مرزاقادیانی تحریف بھی کرتے تھے
مرزاقادیانی نے اپنی کتاب (حقیقت الوحی ص۳۹۰، خزائن ج۲۲ ص۴۰۶) پر لکھا کہ: ’’مجدد صاحب سرہندی نے اپنے مکتوب میں لکھا ہے کہ اگرچہ اس امت کے بعض افراد مکالمہ